• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 46226

    عنوان: میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ تروایح کا اصل طریقہ کیا ہے؟

    سوال: (۱) میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ تروایح کا اصل طریقہ کیا ہے، کیا امام صاحب سے پورا قرآن سننا ضروری ہے؟ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ رمضان میں تروایح کے دوران پورا قرآن سننا ضروری نہیں ہے، میں نے کہا کہ تراویح میں ختم قرآن بہتر ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ ختم قرآن ضروری نہیں ہے، کیا ہم صرف سورة تروایح پڑھ سکتے ہیں؟براہ کرم، کربتائیں کہ تراویح پڑھنے کا اصل طریقہ کیا ہے؟ (۲)کیا ڈیوٹی کی وجہ سے ہم اپنی پسند سے نماز کا وقت متعین کرسکتے ہیں؟کیوں کہ یہاں امام صاحب اذان ختم ہی فجر کی نماز پڑھاتے ہیں، پوچھنے انہوں نے کہا کہ ڈیوٹی کی وجہ سے پڑھ سکتے ہیں جب کہ اس وقت ڈیوٹی میں جانے کے لے کافی وقت رہتاہے۔

    جواب نمبر: 46226

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1094-850/H=9/1434 (۱) بیس (۲۰)رکعات تراویح بعد فرضِ عشاء وسنت دو دو رکعت کرکے پڑھنا وتر سے پہلے سنت موٴکدہ ہے اور تراویح میں ایک قرآنِ کریم کا سننا یا پڑھنا مستقل سنت ہے، امام صاحب ہی سے سنا جائے یہ کچھ ضروری نہیں بلکہ مستقل امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص سنادے تب بھی ادائے سنت ہوجائے گی۔ (۲) اگر مولوی صاحب کی یہ مراد ہے کہ فرض وواجب نہیں تو ان کی بات صحیح ہے اور اگر یہ مراد ہے کہ سنتِ موٴکدہ ہونے کے باوجود ضروری نہیں تو ان کا قول غلط ہے، اگر آپ کی مراد بہتر سے سنت ہونا ہے تو آپ کا قول درست ہے او راگر بہتر سے مراد درجہٴ استحباب ہے تو آپ کا قول غلط ہے۔ (۳) اگر پورے ماہ چھوٹی چھوٹی سورتوں سے تراویح پڑھ لی تو تراویح ہوگئی البتہ مکمل قرآنِ کریم کے سننے یا پڑھنے کی سنت چھوٹ گئی۔ (۴) اذانِ فجر ختم ہوتے ہی جماعت کرنے کی عادت بنالینا مکروہ ہے، اطمینان سے اذان ہوجائے او رامام ونمازی سنتِ فجر باطمینان اداء کرلیں مثلاً اذان کے دس منٹ بعد جماعت قائم کریں تو اچھا ہے اور بہتر غیر رمضان المبارک میں یہ ہے کہ وقت طلوعِ آفتاب سے آدھ گھنٹہ یا پینتیس منٹ قبل جماعت قائم کی جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند