• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 610369

    عنوان: وقت مقررہ پر نماز پڑھنے سے کیا مراد ہے 

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مومنین پر نماز فرض ہے اپنے مقررہ وقتوں میں۔ مقررہ وقت سے مراد وہ وقت جو مسجد کے امام صاحب مقرر کرتے ہیں مثلا عصر کی نماز آج کل 5:00 بجے ہورہی ہے ۔ یا یہ مراد ہے کہ عصر کا اول سے آخر تک کا وقت مثلا عصر کا وقت آج کل شروع ہورہا ہے ۔ 4:37 ۔ پر اور ختم ہورہا ہے۔6:15 ۔ پر ۔ آیت میں جو آیا ہے کہ ان الصلاة كانت علي المؤمنين كتابا موقوتا، اس سے مراد عصر کا پور وقت ہوگا یا جو امام صاحب نے مقرر کیا ہے وہ مراد ہوگا ؟برائے مہربانی جواب مدلل عنایت فرمائیں ۔

    جواب نمبر: 610369

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1040-811/L=08/1443

     مذكورہ آیت میں ’’موقوتا‘‘ (مقررہ وقت) سے مراد شریعت كا مقررہ وقت ہے جو ہر نماز كا ابتداء سے انتہاء تك ہوتا ہے؛ لہٰذا ہرنماز كو اس كے مقررہ وقت سے پہلے (مثلاً: ظہر كو فجر كے وقت میں) پڑھنا جائز نہیں اور نہ مقررہ وقت سے مؤخر كركے قضاء كردینا (مثلاً: ظہر كو عصر كے وقت میں پڑھنا)

    اس سے مراد امام صاحب كی جانب سے مقررہ وقت نہیں ہے وہ تو نمازیوں كی سہولت كے لیے ایك وقت طے كیا جاتا ہے كہ سب اس میں پہونچ جائیں اور كوئی جماعت كی فضیلت سے محروم نہ ہو؛ لہٰذا اس وقت سے پہلے پڑھنا ناجائز یا بعد میں پڑھنا قضاء نہ كہلائے گا جب كہ نماز كے اصل وقت كے اندر اندر ہو‏، ہاں اگر بلاعذرِ شرعی انفرادی پڑھ لے تو جماعت چھوڑنے كا وبال بہرحال ہوگا۔

    قال الجصاص في تفسير هذه الآية: "موقوتا" معناه أنه مفروض في أوقات معلومة معيّنة فأجمل ذكر الأوقات في هذه الآية، وبيّنها في مواضع أخر من الكتاب من غير تحديد أوائلها وأواخرها وبيّن على لسان الرّسول تحديدها ومقاديرها" (أحكام القرآن: 2/333، النّساء: 103، م: دارالكتب العلميّة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند