• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 38257

    عنوان: اذان واقامت كے بارے میں

    سوال: سوال یہ ہے کہ (۱) اگر کوئی شخص گھر میں نماز پڑھا رہا ہو جیسا کہ رمضان میں گھروں میں تراویح ہوتی ہے تو وہیں پر صرف عشاء کی نماز بھی ہوتی ہے باقی ۴ نمازیں مسجد میں ہی پڑھی جاتی ہیں اور وہاں پر مسجد سے اذان کی آواز بھی آتی ہو تو کیا گھر میں بھی اذان دینا ضروری ہے یا اذان کے بغیر صرف جماعت کر لیں؟ (۲) نیز گھر میں غیر محرم نماز جماعت سے کس طرح پڑھے گی؟ یعنی امام نیت کس طرح کریگا؟ (۳) اسی طرح اگر کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو کیا وہ اذان اور اقامت خود کہے گا اور خود اکیلا نماز پڑھیگا یا اذان اقامت کی ضرورت نہیں ہے؟ (۴) اسی طرح قضا نماز میں بھی اذان اقامت کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ (۵) وتر کی نماز کی نیت میں وقت عشاء کا کہنا درست ہے یا نہیں یا واجب اللیل کہنا ضروری ہے یا دونوں طرح نیت کر سکتے ہیں ؟ (۶) اگر کوئی شخص عصر کی نماز میں بھول سے عشاء کی نیت بول دیا پھر اسے خیال آیا تو اس نے بغیر سلام پھیرے اسی حالت میں دوبارہ زبان سے عصر کی نیت کر لی اور بغیر ہاتھ اٹھاے اللہ اکبر کہ دیا تو کیا اس سے عصر کی نماز ہو جائے گی یا ہاتھ کا اٹھانا ضروری ہے؟ اور کیا اس پر عشاء کی نماز واجب ہو گئی نیت کی وجہ سے؟

    جواب نمبر: 38257

    بسم الله الرحمن الرحيم

    F: 143-167/N=5/1433

    تمام فرض نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا سنت موٴکدہ ہے، مسجد کی جماعت چھوڑکر گھر میں جماعت کرنا مکروہ ہے، مسجد کی جماعت چھوڑنے کا گناہ ہوگا اس لیے جو لوگ رمضان میں گھر میں تراویح پڑھنے کی صورت میں عشاء کی نماز بھی گھر ہی میں پڑھ لیتے ہیں، مسجد کی جماعت چھوڑدیتے ہیں ان کا یہ عمل صحیح نہیں۔ ہاں اگر کسی عذر شرعی مثلاً سخت بارش وغیرہ کی وجہ سے گھر کے مرد حضرات مسجد نہ جاسکتے ہوں جس کی بنا پر گھر ہی میں نماز باجماعت ادا کرنا چاہیں تو اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ مسجد کی اذان وقامت کافی ہے، اذان واقامت کے بغیر جماعت کرسکتے ہیں لیکن مستحب یہ ہے کہ اذان واقامت کے ساتھ جماعت کی جائے قال في الدر (مع الرد، کتاب الصلاة باب الأذان: ۲/۶۳، ط: زکریا دیوبند): وکرہ ترکہما معًا․․․ بخلاف مصل ولو بجماعة في بیتہ بمصر أو قریة لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ: لأن أذان المحلة وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ․․․ اھ وقال في الہدایة (کتاب الصلاة، باب الأذان: ۱/ ۷۶)؛ فإن صلی في بیتہ في المصر یصلي بأذان وإقامة لیکون الأداء علی ہیئة الجماعة وإن ترکہما جاز․․․ اھ (۲) عورتوں کے لیے افضل وبہتر یہی ہے کہ وہ گھروں میں اپنی اپنی نمازیں پڑھیں، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ان کے حق میں افضل نہیں، اور اگرمردوں کے ساتھ جماعت میں شامل ہونا ہی چاہیں تو پردہ کی آڑ کے ساتھ ان کی شرکت درست ہے، بشرطیکہ امام ان کی بھی نیت کرے، اور امام نیت یہ کرے گا کہ میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی امام ہوں۔ (۳) اگر منفرد مسافر ہے اور جنگل میں نماز ادا کررہا ہے تو اذان واقامت دونوں کہنا مستحب ہے، اور صرف اقامت پر اکتفاء کرنا بھی جائز ہے، اور اطمینان وسکون کی حالت اذان واقامت دونوں چھوڑدینا خلافِ اولیٰ ہے، قال في الہدایة (کتاب الصلاة باب الأذان: ۱/۷۶): والمسافر یوٴذن ویقیم فإن ترکہما جمیعا یکرہ ولو اکتفی بالإقامة جاز اھ اور اگر گھر میں نماز ادا کررہا ہے تو محلہ کی اذان واقامت کافی ہے، لیکن پھر بھی اذان واقامت کہہ لینا مستحب ہے، اور اگر کسی مسجد میں جماعت ہوجانے کے بعد نماز ادا کررہا ہے تو بغیر اذان واقامت دونوں کہہ لینا مستحب ہے۔ اور اگر کسی مسجد میں جماعت ہوجانے کے بعد نماز ادا کررہا ہے تو بغیر اذان واقامت کے نماز پڑھے گا، اس کے لیے اذان واقامت کہنا مکروہ ہے۔ قال في الدر (مع الرد کتاب الصلاة باب الأذان: ۲/۶۳، ط: زکریا دیوبند): وکرہ ترکہما معا․․․ بخلاف․․․ مصل في مسجد بعد صلاة جماعة فیہ بل یکرہ فعلہما اھ․ (۴) قضا نماز اگر جماعت کے ساتھ یا آبادی سے دور ادا کی جائے تو اذان واقامت کہنا مسنون ہے اور اگر گھر میں اکیلے ادا کی جائے تو محلہ کی اذان واقامت کافی ہے، لیکن پھر بھی اذان واقامت دونوں کہہ لینا مستحب ہے، قال في الدر (مع الرج کتاب الصلاة باب الأذان: ۲/۵۷، ط: زکریا دیوبند): ویسن أن یوٴذن ویقیم لفائتة رافعا صوتہ لو بجماعة أو صحراء أو بیتہ منفردًا اھ․ (۵) نماز وتر کی نیت میں وقت عشا کہہ سکتے ہیں، ضروری نہیں قال في رد المحتار (کتاب الصلاة باب شروط الصلاة: ۲/۹۸، ط: زکریا دیوبند): وفي الأشباہ الخطأ فیما لا یشترط لہ التعیین لا یضر کتعیین مکان الصلاة وزمانہا․․․ اھ اور اگر وتر واجب یا واجب اللیل کہیں تو یہ بھی جائز ہے، بلکہ حنفی کو وتر واجب کہنا چاہیے کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وتر کی نماز واجب ہے قال في رد المحتار (کتاب الصلاة باب شروط الصلاة: ۲/۹۵-۹۷): ولا بد من التعیین عند النیة․․․ لفرض ․․․ وواجب أنہ وتر اھ وفي الرد: قولہ: ”أنہ وتر“: لأنہ إن کان حنفیا ینبغي أن یونویہ لیطابق اعتقادہ اھ․ (۶) ایسی صورت میں دوبارہ نیت کی ضرورت نہیں تھی، عصر کی نماز میں اگر سہواً عشا کہہ دے تو اس میں کچھ حرج نہیں، اور جو صورت آپ نے اختیار کی نماز اس میں بھی ہوگئی، اور نیت عصر میں عشا کہہ دینے سے عشا کی نماز فرض یا واجب نہیں ہوئی، وہ تو عشا کا وقت آنے پر ہی فرض ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند