• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 606854

    عنوان:

    کیا تراویح میں بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنا ضروری ہے؟

    سوال:

    تراویح میں قرآن مکمل کرنے کے لیے بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز پڑھنا ضروری ہے جب کہ سورہ نمل میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ لیتے ہیں، پھر کیوں ضروری ہے سورت کے شروع میں بلند سے بسم اللہ پڑھنا ؟

    ۲-اگر امام صاحب تراویح میں سورہ بقرہ سے پہلے جہری تعوذ اور تسمیہ پڑھ لیں تو نماز کا کیا حکم ہے اور فرض نماز میں کیا حکم ہے ؟

    جواب نمبر: 606854

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:9-11T/D-Mulhaqa=4/1443

     امداد الفتاوی (۳۶۶/۲، ۳۶۷، جدید)میں ہے :کتب مذہب میں تصریح ہے کہ بسم اللہ مطلق قرآن کا جزو ہے کسی خاص سورت کا یا ہر سورت کا جزو نہیں پس اس کا مقتضا یہ ہے کہ (تراویح میں )ایک جگہ ضرور جہر ہو ورنہ سامعین کا قرآن پورا نہ گا،گو قاری کا تواخفاء بسم اللہ میں بھی ہوجاوے گا کیونکہ بعض اجزاء کا جہر بعض کا اخفاء جائز ہے اھ اس سے معلوم ہوگیا کہ تراویح میں کسی سورت کے شروع میں ایک بار بسم اللہ جہرا کیوں پڑھنا چاہیے ،مجموعہ رسائلِ لکھنوی ہے :

    ”ولو قرأ تمام القرآن فی التراویح و لم یقرأ البسملة فی ابتداء سورة من السور سوی ما فی سورة النمل، لم یخرج عن عہدة السنیة، و لو قرأہا الإمام سرًّا خرج عن العہدة، و لکن لم یخرج المقتدون عن العہدة“․ (مجموعة رسائل اللکنوی:۷۱/۱، أحکام القنطرة فی أحکام البسملة،ادارة القرآن و العلوم الإسلامیة، کراتشی، نیز دیکھیے : امداد الاحکام : ۶۷۶/۱)

    (۲)اگر امام صاحب سورہ بقرہ سے پہلے جہرا تسمیہ و تعوذ پڑھ لیں، تو نماز تو ہوجائے گی؛ لیکن امام اور منفرد کے لیے مسنون یہ ہے کہ صرف پہلی رکعت میں ثنا کے بعد سرا تعوذ و تسمیہ پڑھے اور سور فاتحہ کے بعد سورت ملانے سے پہلے صرف تسمیہ پڑھے ، تراویح اور فرض نمازوں کا حکم یکساں ہے ۔

    قال الحصکفی : (و) کما استفتح (تعوذ) بلفظ أعوذ علی المذہب (سرا) قید للاستفتاح أیضا فہو کالتنازع (لقرائة) فلو تذکرہ بعد الفاتحة ترکہ۔۔۔(و) کما تعوذ (سمی) غیر الموٴتم بلفظ البسملة، لا مطلق الذکر کما فی ذبیحة ووضوء (سرا فی) أول (کل رکعة) الخ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۴۹۰/۱، دار الفکر، بیروت ،

    نیز دیکھیے : فتاوی رحیمیہ : ۲۹/۵؛ البتہ تراویح میں امام کو ایک بار تسمیہ جہرا پڑھ لینا چاہیے تاکہ سامعین کے حق میں مکمل قرآن سننے کی سنت اداء ہوجائے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند