• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 56244

    عنوان: نماز کے متعلق

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کچھہ لوگ مرد حضرات سینہ پر ہاتھ باندھ تے ہیں اور سینہ پرہاتھ باندھنے کی حدیث کا حوالہ نسائی شریف سے دیتے ہیں ازراہ کرم صحیح حدیث کی روشنمیں جواب دیں عین کرم ہوگا

    جواب نمبر: 56244

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 15-15/Sd=1/1436-U نماز میں مردوں کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنامسنون ہے، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں ناف کے نیچے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے ہوئے دیکھا عن وائل بن حجر عن أبیہ قال: رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یضع یمینہ علی شمالہ في الصلاة تحت السرة․ (آثار السنن: ۱/۶۹) قاسم بن قطلوبغا نے اس حدیث کو ”تحت السرة“ کے اضافے کے ساتھ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ہذا إسناد جید (ہامش المصنف ابن أبي شیبة نقلاً عن التعریف والإخبار بتخریج أحادیث الاختیار: ۳/۳۲۰-۳۲۱، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة، باکستان) جو لوگ سینے پر ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں نسائی شریف کی روایت پیش کرتے ہیں ان کی بات صحیح نہیں؛ اس لیے کہ نسائی کی روایت میں ”علی صدرہ“ کا لفظ نہیں ہے، اس کا اضافہ صرف موٴمل بن اسماعیل نے کیا ہے، جس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ منکرالحدیث ہیں، محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ موٴمل جب کسی حدیث میں منفر د ہوں تو اس میں توقف کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہ سیء الحفظ اورکثیر الغلط ہیں، چونکہ تنہا موٴمل نے ”علی صدرہ“ کا اضافہ کیا ہے، اور ثقات نے اس کا تذکرہ نہیں کیا، اس لیے ان کی زیادتی قابل قبول نہیں۔ قال الحصکفي: وسننہا: وضع یمینہ علی یسارہ تحت السرة (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/ ۱۷۲، زکریا) قال العلامة النیموي: وزیادة ”علی صدرہ“ غیر محفوظة․ قلتُ: رواہ أحمد في مسندہ من طریق عبد اللہ بن الولید عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن أبیہ عن وائل بن حجر والنسائي من طریق زائدة عن عاصم عن أبیہ عن وائل -- کلہم بغیر ہذہ الزیادة وقد نصّ ابن القیم في إعلام الموقعین: لم یقل ”علی صدرہ“ غیر موٴمل بن إسماعیل، فثبت أنہ منفرد في ذلک․ (بذ المجہود: ۲/۲۶، اشرفیہ، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند