• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 163634

    عنوان: نماز میں رفع یدین کی شرعی حیثیت

    سوال: حضرت مفتی صاحب! نماز میں رفع یدین کرنا جائز ہے یا نہیں؟ ہے تو کیوں؟ اور نہیں ہے تو کیوں؟ حدیث کے حوالے سے بتائیں۔

    جواب نمبر: 163634

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1290-165Tsd=11/1439

     احناف کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ نماز میں کہیں بھی رفع یدین نہیں ہے ، اُن کے نزدیک رفع یدین کی احادیث منسوخ ہوگئی ہیں، اس لیے کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے رفع یدین کو ترک کردیا تھا اور صرف نیت باندھتے وقت ہاتھوں کو اٹھاتے تھے ، ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاوں؟ پھر آپ نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا: عن علقمة قال: قال عبد اللہ بن مسعود ألا أصلی بکم صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصلّی فلم یرفع یدیہ إلا فی أول مرة (ترمذی: ۳۵/۱، ابواب الصلاة) علامہ ابن حزم نے المحلی میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے ، امام احمد بن حنبل، دارقطنی، ابن قطان، ابن تیمیہ اورامام نسائی کے نزدیک بھی اس کی صحت مسلّم ہے ، یہ روایت ابوداود، نسائی، شرح معانی الآثار میں بھی متعدد طریق سے مروی ہے ، اس کے علاوہ حضرت براء بن عازب، عبد اللہ بن عمر، ابن عباس، ابوہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی متعدد احادیث مروی ہیں، جن میں یہ صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف شروع نماز میں رفع یدین کرتے تھے ۔ اس لیے احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت اور تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع یدین منسوخ ہے اور نہ کرنا اولیٰ اورافضل ہے ۔ اس مسئلے سے متعلق دار العلوم دیوبند کا ایک مدلل و مفصل فتوی چند اہم عصری مسائل جلد اول اور چند اہم فتوے نامی کتاب میں شائع ہوچکا ہے ، یہ دونوں کتابیں دار العلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند