• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 601004

    عنوان:

    نماز میں (ض) كی جگہ (د) پڑھ دے تو نماز ہوگی یا نہیں؟

    سوال:

    (۱) اگر امام نماز میں حرف (ض) کے جگہ (د) پڑجائے تو نماز اس کی ادا ہوجائی گی یا نہیں؟

    (۲) اگر ایک صاحب کے پاس دس ہزار ڈالر موجود ہوتو یہ نکاح کرے یا حج؟ اگر نکاح کرے پھراس کے ذمے پھر حج باقی ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 601004

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:218-242/SD=5/1442

     (۱) ض کا مخرج حافہ لسان اور اضراس علیا ہے ، ض کو اس کے مخرج سے ہی ادا کرنا چاہیے ، ض کودواد پڑھنا درست نہیں، لیکن اگر کوئی امام باوجود کوشش کے ض کو صحیح مخرج سے ادا نہیں کر پاتا؛ اس لئے وہ اسے دال یا اس کے مشابہ پڑھتا ہے ، تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے ؛ لیکن امام پر ضروری ہے کہ تصحیح مخرج کے لئے کوشش کرتا رہے ۔ (مستفاد ازامدادالاحکام ۱/۵۶۶، سوال: ۲وص: ۵۶۹، سوال: ۵وص: ۵۷۱، سوال: ۶، ط: کراچی، وامداد الفتاوی ۱/۲۹۲، سوال: ۲۳۹، ط: زکریا)

    (۲) آپ نے لکھا ہے کہ مذکورہ شخص کے پاس دس ہزار ڈالر ہیں ، اتنی رقم میں تو شادی اور حج دونوں کیا جاسکتا ہے ، شادی میں سادگی مطلوب ہے، اسراف و فضول خرچی سے بچتے ہوئے شادی میں جتنے واقعی اخراجات ہوں گے ، شرعی حکم میں اسی کا اعتبار ہوگا ، پس اگر کسی کے پاس اتنی رقم ہو کہ وہ اس سے شادی اور حج دونوں میں سے کوئی ایک عبادت انجام دے سکتا ہے ، تو اس کے لیے شرعی حکم میں تفصیل ہے ، اگر اس کا نفس بے قابو نہیں ہے اور حج کا وقت آگیا تو حج میں جانا ضروری ہے؛ ہاں اگر حج کا وقت ابھی نہیں آیا تو پھر اس کے لیے شادی کرلینا بھی جائز ہے؛ لیکن اگر شادی نہ کرنے کی صورت میں معصیت کا اندیشہ ہے تو پھر بہرصورت شادی کرلینا جائز ہے خواہ حج کا وقت آگیا ہو یا نہ آیا ہو اور جن صورتوں میں شادی کرلینا جائز ہے ، ان میں اس شخص پر دوبارہ حج اس وقت فرض ہوگا جب اس کے پاس حج کے اخراجات مہیا ہوجائیں گے ۔

    قال الحصکفی: وفی الأشباہ: معہ ألف وفاف العزوبة إن کان قبل خروج أہل بلدہ فلہ التزوّج ولو وقتہ لزمہ الحج۔ قال ابن عابدین :ولذا اعترضہ ابن کمال باشا فی شرحہ علی الہدایة بأنہ حال التوقان مقدّم علی الحج اتفاقًا؛ لأن فی ترکہ امرین: ترک الفرض والوقوع فی الزنا، وجواب أبی حنیفة فی غیر حال التوقان اھ أی فی غیر حال تحققہ الزنا لأنہ لو تحققہ فرض التزوج أما لو خافہ فالتزوج واجب لا فرض فیقدم الحج الفرض علیہ فافھم (الدر المختار مع رد المحتار: ۴۶۱/۳، ط: زکریا،أنوار مناسک، ص: ۱۵۸) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند