• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 155603

    عنوان: امام کے پیچھے کوئی رکن چھوٹ گیا

    سوال: سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی رکن رہ جائے امام کے پیچھے کسی بھی وجہ سے تو اسے اس نماز کو درست کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے ؟ اگر وہ رکن جلدی سے ادا کر کے امام کو پہنچ جائے تو کیا حکم ہے ؟ اگر وہ رکعت سلام کے بعد دوبارہ ادا کر لی تو کیا نماز درست ہو گئی؟ اسی طرح اگر امام رکوع میں تھا اور ایک شخص تکبیر تحریمہ کہہ کر کھڑا تو ہو گیا مگر اس کے رکوع میں پہنچنے سے پہلے ہی امام رکوع سے اٹھ گیا تو کیا اس کی بھی صورت اوپر پوچھے گئے مسئلے کی طرح ہو گی؟ جزاکم اللہ

    جواب نمبر: 155603

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:80-87/N=2/1439

    (۱-۳): اگر کوئی شخص امام کے ساتھ شریک نماز ہے اور دوران نماز اونگھ یا غفلت کی وجہ سے امام کے ساتھ اس کا کوئی رکن چھوٹ گیا تو اس مقتدی کو چاہیے کہ تنبہ کے بعد فوراً وہ رکن ادا کرکے امام کو پالے، چھوٹے ہوئے رکن کو ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے۔ اور اگر کسی نے اخیر نماز میں امام کے سلام کے بعد چھوٹا ہوا رکن ادا کیا تو نماز ہوجائے گی؛ البتہ ترتیب کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔ اور کسی ایک رکن کے چھوٹ جانے پر پوری رکعت لوٹانے کی ضرورت نہیں، صرف چھوٹا ہوا رکن اداکرلینا کافی ہے۔

    وفی البحر: وحکمہ أنہ یبدأ بقضاء ما فاتہ بالعذر ثم یتابع الإمام إن لم یفرغ، وھذا واجب لا شرط حتی لو عکس یصح؛ فلو نام فی الثالثة واستیقظ فی الرابعة فإنہ یأتي بالثالثة بلا قراء ة، فإذا فرغ منھا صلی مع الإمام الرابعة، وإن فرغ منھا الإمام صلاھا وحدہ بلا قراء ة أیضاً؛ فلو تابع الإمام ثم قضی الثالثة بعد سلام الإمام صح وأثم اھ، ومثلہ فی الشرنبلالیة وشرح الملتقی للباقاني (رد المحتار، کتاب الصلاة، آخر باب الإمامة، ۲:۳۴۵، ۳۴۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔

    (۴):جی نہیں! یہ مسئلہ اوپر والے مسئلہ کی طرح نہیں ہے؛ بلکہ اگر امام رکوع میں تھا اور ایک شخص تکبیر تحریمہ کہہ کر جماعت میں شریک ہوا؛ لیکن امام کے ساتھ اس رکوع میں اس کی بالکل شرکت نہیں ہوئی ، یعنی: تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رکوع کے لیے جھکا ہی نہیں تھا یا جھکا تھا؛ لیکن رکوع کی حد سے کم اور امام نے رکوع سے مکمل طور پر سر اٹھالیا تو مقتدی وہ رکعت پانے والا شمار نہ ہوگا؛ بلکہ مسبوق ہوگا اور مسبوق چھوٹی ہوئی رکعت امام کے سلام کے بعد ادا کرتا ہے۔ اور اگر اس شخص کی امام کے ساتھ رکوع میں معمولی بھی شرکت ہوگئی تو یہ رکعت پانے والا شمار ہوگا اور اسے آئندہ اس رکعت کا کوئی رکن بھی ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔

    ولو اقتدی بإمام راکع فوقف حتی رفع الإمام رأسہ لم یدرک الموٴتم الرکعة؛ لأن المشارکة في جزء من الرکن شرط ولم توجد الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب إدراک الفریضة،۲: ۵۱۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، فی البنایة ما نصہ: في جامع التمرتاشي: ذکر الجلابي في صلاتہ: أدرک الإمام فی الرکوع فکبر قائماً ثم رکع أو شرع فی الانحطاط وشرع الإمام فی الرفع اعتد بھا، وقیل: لو شارکہ فی الرفع، قیل: إن کان إلی القیام أقرب لا یعتد، والأصح أنہ یعتد إذا وجدت المشارکة قبل أن یستقیم قائماً وإن قل الخ (تقریرات الرافعي، ۱: ۹۶)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند