• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 67703

    عنوان: شراکت داری

    سوال: ہمارا ایک ادارہ ہے جس میں بچوں سے فیس وصول کی جاتی ہے اور معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے ۔ اس ادارہ کی ابتداء میں ہم تین شریک تھے ۔ جس میں سے ایک شریک نے اپنا حصہ وصول کرکے ادارہ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اور ہم دو شریک رہ گئے جو 50٪ 50٪ کے مالک تھے مگر ایک تنازعہ کے موقع پر ہم دونوں میں سے ایک نے باقاعدہ لکھ کردے دیاکہ اب وہ ادارہ کی ساری چیزیں میرے حوالہ کررہا ہے ۔ اس معاملہ کے باوجود میں اس کی خدمات کے پیش نظر ان کو تقریباً 50٪ ہی کی مراعات دیتا ہوں نیز باقاعدہ تنخواہ بھی مقرر ہے اور ان کی کچھ ذمہ داریاں بھی طے کردی گئی ہیں ۔ نیز میران کے ساتھ رعایت کا معاملہ بھی ہے ۔ میں یہ بھی وضاحت کرتا چلو ں کہ وہ میرے رشتہ دار بھی ہیں۔ اس تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ: ۱) کیا یہ صاحب اب بھی اس ادارہ میں 50٪ کے شریک مانے جائیں گے ؟ جبکہ وہ تحریری طور سے دستبرداری کا اعلان کرچکے ہیں۔ ۲) اب یہ صاحب اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو ادا نہیں کررہے ہیں اور ایک عرصہ سے صرف آدھا وقت ادارہ کو دیتے ہیں، باقی وقت وہ اپنے امور میں لگاتے ہیں واضح رہے کہ ان کو ان کی خدمات کے پیش نظر ادارہ کی تقریباً 20٪ ذمہ داریاں دی گئی ہے ۔ تو کیا سابقہ خدمات کی بنیاد پر ان کا موجودہ ذمہ داریوں سے انحراف کرنا شرعاً درست ہے ۔ ۳) اگر یہ صاحب دوبارہ اس ادارہ میں اپنے 50٪ حصہ کا دعویٰ کریں تو شرعا ًمعتبر ہوگایا نہیں۔ براہ کرم شریعت کے مطابق فیصلہ فرمائیں ۔بندہ انشاء اللہ عمل کر ے گا۔

    جواب نمبر: 67703

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1100-1243/H=11/1437 (۱) ”اب وہ (ایک شریک) ادارہ کی ساری چیزیں میرے (دوسرے شریک ) حوالہ کراتا ہے“ اِس قول میں اپنی ملکیت کو دوسرے شریک (آپ) کی طرف منتقل کرنا تو لازماً نہیں پایا جاتا البتہ اگر وہ کہے کہ میں نے اپنی ملکیت کو اپنے شریک کی طرف منتقل کردیا تو الگ بات ہے ورنہ محض اپنی چیز کو دوسرے کے حوالہ کر دینے کی وجہ سے دوسرا شخص مالک نہیں ہوجاتا۔ (۲) بغیر کسی وجہ شرعیہ کے ذمہ داریوں سے انحراف کرنا درست نہیں۔ (۳) جیسا کہ (۱) کے تحت تفصیل سے لکھا گیا اس کا مقتضٰی یہی ہے کہ اگر وہ پچاس فی صد حصہ میں اپنی ملکیت کا دعوی کرے تو وہ دعوی درست ہوگا بہتر یہ ہے کہ دو چار سنجیدہ معاملہ فہم حضرات کو بیچ میں ڈال کر از سرنو صاف و واضح انداز پر تمام امور کو فیصلہ کن انداز میں طے کرلیے جائیں تاکہ بعد میں کچھ نزاع نہ رہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند