• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 13951

    عنوان:

    زید نے چار سال پہلے ایک شخص کو تین لاکھ روپے قرض دیے اس شرط پر کہ اس رقم سے تم اپنے نامکمل مکان کو مکمل کرکے مجھے پانچ سال کے لیے دو ہزار روپئے ماہوار پر مجھے کرایہ پر دوگے؟ ان تین لاکھ روپے میں سے ساکی لاکھ بیس ہزار روپئے ایڈوانس کرایہ کے طور پر مقرر ہے جب کہ باقی رقم مالک مکان جلد از جلد واپس کرے گا؟ اب چوتھے سال مالک مکان زید کو بقایا رقم واپس کرنا چاہتا ہے لیکن زید کہتا ہے کہ اس وقت روپے کی قیمت زیادہ تھی اس وقت روپے کی قیمت کم ہے، لہٰذا اب تم مجھے اس سے زیادہ دو گے؟ کیا زید کا یہ مطالبہ صحیح ہے؟

    سوال:

    زید نے چار سال پہلے ایک شخص کو تین لاکھ روپے قرض دیے اس شرط پر کہ اس رقم سے تم اپنے نامکمل مکان کو مکمل کرکے مجھے پانچ سال کے لیے دو ہزار روپئے ماہوار پر مجھے کرایہ پر دوگے؟ ان تین لاکھ روپے میں سے ساکی لاکھ بیس ہزار روپئے ایڈوانس کرایہ کے طور پر مقرر ہے جب کہ باقی رقم مالک مکان جلد از جلد واپس کرے گا؟ اب چوتھے سال مالک مکان زید کو بقایا رقم واپس کرنا چاہتا ہے لیکن زید کہتا ہے کہ اس وقت روپے کی قیمت زیادہ تھی اس وقت روپے کی قیمت کم ہے، لہٰذا اب تم مجھے اس سے زیادہ دو گے؟ کیا زید کا یہ مطالبہ صحیح ہے؟

    جواب نمبر: 13951

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1106=1050/ب

     

    زید کا قرض دیتے وقت کرایہ پر مکان دینے کی شرط لگانا جائز نہیں کیونکہ جس قرض سے قرض خواہ نفع حاصل کرے کل قرض جر نفعًا فھو حرام کے تحت وہ نفع ناجائز او رحرام ہے اور زید نے تین سال قبل مکان مالک کو جتنا روپیہ قرض دیا تھا اتنا ہی روپیہ زید اپنے مقروض سے لینے کا حق دار ہے، اس سے زیادہ وصول کرنا جائز نہیں، بلکہ وہ زائد رقم سود اور حرام ہوگی، روپیہ کی قیمت کے کم اور زیادہ ہونے کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوتا: کما في البدائع ولو استقرض فلوسًا نافقة وقبضہا ولم تکسد لکنہا رخصت أو علت فعلیہ رد مثل ما قبض بلا خلاف


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند