• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 606951

    عنوان:

    والدہ‏، تین بھائیوں اور دو بہنوں کے بیچ تقسیم وراثت

    سوال:

    سوال : محترم جناب سوال یہ ہے کہ میرے والد محترم کا انتقال ہو گیا تھا، اور میں گھر سے الگ رہتا تھا۔ والد کی وفات کے بعد اپنی والدہ کی فکر میں گھر واپس آنا چاہا مگر والدہ نے عرض کیا کہ آپ اوپر والا پورشن تیار کر کے رہ سکتے ہو۔ میں قرض لے کر اپنا گھر اپنی آبائی جگہ کے اوپر والے پورشن پر تعمیر کیا اور بہن بھائیوں اور والدہ سے درخواست کی کہ لگائی گئی رقم مجھے الگ سے ادا کی جائے جب بھی گھر فروخت ہو۔ انہوں نے پہلے اعتراض کیا اور بعد میں کچھ حضرات سے مشورہ کر کے اجازت دے دی اور اسٹامپ پیپر میں بھی سب نے دستخط کر دیے ۔ کیونکہ اسی گھر میں رہنا میرا شرعی حق ہے مگر مجھے اسی پورشن میں رہنے کی اجازت نہ تھی۔ اب اس کی تقسیم کیسے ہو گی؟ ذرا تفصیل سے بتائیں۔ اگر ایک کروڑ کا گھر ہے اور 13 لاکھ میرے الگ سے لگے ہیں اور ہم تین بھائی، دو بہنیں اور ایک ولدہ ہیں۔ 13 لاکھ کی تقسیم کا طریقہ کیا ہوگا اور بقایا کا بھی؟

    جواب نمبر: 606951

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 52-27T/B-Mulhaqa=04/1443

     آپ کے والد مرحوم نے مکان وغیرہ پر مشتمل جو ترکہ چھوڑا ہے، اس کے بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث کل 64 حصے کیے جائیں گے، جن میں سے 8 حصے آپ کی والدہ کو، 14-14 حصے آپ تینوں بھائیوں کو اور 7-7 حصے آپ کی دونوں بہنوں کو ملیں گے، اوپر کا پورشن جو آپ نے دیگر ورثاء کی اجازت سے تعمیر کیا ہے، اس کا خرچ بھی تمام ورثاء مذکورہ بالا تناسب سے برداشت کریں گے۔ الضّابط أنّ کل من أجبر أن یفعل مع شریکہ إذا فعلہ بلا إذن فہو متطوّع وإلاّ فلا ․․․․․․ والذی تحصّل فی ہذا المحلّ أن الشّریک إذا لم یضطرّ إلی العمارة مع شریکہ بأن أمکنہ القسمة فأنفق بلا إذنہ فہو متبرع، وإن اضطر وکان الشریک یجبر علی العمل معہ فلا بدّ من إذنہ أو أمر القاضي فیرجع بما أنفق الخ (درمختار مع رد المحتار: 6/512 تا 514، قبیل کتاب الوقف، مطبوعہ: مکتبہ زکریا، دیوبند)۔ نیز دیکھیں: فتاوی دارالعلوم: 13/54، سوال: 17، شرکت و بٹوارہ کا بیان، مطبوعہ: مکتبہ دارالعلوم دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند