• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 61178

    عنوان: کیا متحدہ شادی کی اجازت ہے؟

    سوال: آج کل وقت کی کمی وجہ سے اور بڑی تقریب پارٹیوں سے بچنے کے لیے مغربی ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں متحدہ شادی بہت عام ہورہی ہے، اس سے دولہا اور دلہن والوں کو بہت آسانی ہوتی ہے اگر دونوں ایک ہی جگہ اور ایک ہی تاریخ کو کھانے پہ مہمانوں کو مدعوکرلیتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا متحدہ شادی کی اجازت ہے؟ (۲) نیز کیا کوئی گنجائش ہے کہ ہم سنت طریقے سے جیسے مسجد میں ظہر کی نماز کے بعد نکاح کرلیں اور لڑکی اور لڑکے والے دونوں دیر رات کو کھانا کھائیں۔

    جواب نمبر: 61178

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1012-1100/N=1/1437-U (۱): اگر دولہا اور دلہن والے دونوں اپنے اپنے مہمانوں کے بقدر پیسے ملاکر ایک ہی جگہ ایک ہی تاریخ میں مشترکہ طور پر دعوت کا نظم کریں تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں،البتہ دعوت میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہونا چاہئے اور معقول پردہ کے ساتھ عورتوں کے لیے کھانے کا نظم مردوں سے بالکل الگ ہونا چاہئے۔ اور لڑکے والے اگر اپنی دعوت، ولیمہ کے طور کرتے ہیں تو مسنون وافضل یہ ہے کہ زفاف کے بعد ہو، اگر چہ نکاح کے بعد زفاف سے پہلے بھی ولیمہ درست ہے، نفس سنت ادا ہوجاتی ہے،مستفاد: قال فی الھندیة (کتاب الکراھیة، الباب الحادي عشر فی الکراھة فی الأکل وما یتصل بہ ۵: ۳۴۱،۳۴۲ ط مکتبة زکریا دیوبند):المسافرون إذا خلطوا أزوادھم، أو أخرج کل واحد منھم درھماً علی عدد الرفقة، واشتروا بہ طعاماً وأکلوا فإنہ یجوز وإن تفاوتوا فی الأکل کذا في الوجیز للکردري اھ، وقال في فتح الباري (۹: ۲۸۷): ذکر ابن السبکي أن أباہ………قال:والمنقول من فعل النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنھا بعد الدخول اھ وقال فی الفتاوی الھندیة (کتاب الکراہیة،الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات۵: ۳۴۳):ولیمة العرس سنة وفیھا مثوبة عظیمة ،وھي إذا بنی الرجل بامرأتہ ینبغي أن یدعو الجیران والأقرباء والأصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما کذا في خزانة المفتین اھ، نیز فتاوی دار العلوم دیوبند (۷: ۱۶۷، سوال:۲۱۰) اور فتاوی عثمانی (مع حاشیہ ۲: ۳۰۲، ۳۰۳) دیکھیں۔ (۲):جی ہاں! ایسا کرسکتے ہیں، درست ہے، اور ولیمہ میں افضل ومسنون یہ ہے کہ زفاف کے بعد کیا جائے جیسا کہ اوپر نمبر ایک میں ذکر کیا گیا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند