معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 61178
جواب نمبر: 61178
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1012-1100/N=1/1437-U (۱): اگر دولہا اور دلہن والے دونوں اپنے اپنے مہمانوں کے بقدر پیسے ملاکر ایک ہی جگہ ایک ہی تاریخ میں مشترکہ طور پر دعوت کا نظم کریں تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں،البتہ دعوت میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہونا چاہئے اور معقول پردہ کے ساتھ عورتوں کے لیے کھانے کا نظم مردوں سے بالکل الگ ہونا چاہئے۔ اور لڑکے والے اگر اپنی دعوت، ولیمہ کے طور کرتے ہیں تو مسنون وافضل یہ ہے کہ زفاف کے بعد ہو، اگر چہ نکاح کے بعد زفاف سے پہلے بھی ولیمہ درست ہے، نفس سنت ادا ہوجاتی ہے،مستفاد: قال فی الھندیة (کتاب الکراھیة، الباب الحادي عشر فی الکراھة فی الأکل وما یتصل بہ ۵: ۳۴۱،۳۴۲ ط مکتبة زکریا دیوبند):المسافرون إذا خلطوا أزوادھم، أو أخرج کل واحد منھم درھماً علی عدد الرفقة، واشتروا بہ طعاماً وأکلوا فإنہ یجوز وإن تفاوتوا فی الأکل کذا في الوجیز للکردري اھ، وقال في فتح الباري (۹: ۲۸۷): ذکر ابن السبکي أن أباہ………قال:والمنقول من فعل النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنھا بعد الدخول اھ وقال فی الفتاوی الھندیة (کتاب الکراہیة،الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات۵: ۳۴۳):ولیمة العرس سنة وفیھا مثوبة عظیمة ،وھي إذا بنی الرجل بامرأتہ ینبغي أن یدعو الجیران والأقرباء والأصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما کذا في خزانة المفتین اھ، نیز فتاوی دار العلوم دیوبند (۷: ۱۶۷، سوال:۲۱۰) اور فتاوی عثمانی (مع حاشیہ ۲: ۳۰۲، ۳۰۳) دیکھیں۔ (۲):جی ہاں! ایسا کرسکتے ہیں، درست ہے، اور ولیمہ میں افضل ومسنون یہ ہے کہ زفاف کے بعد کیا جائے جیسا کہ اوپر نمبر ایک میں ذکر کیا گیا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند