معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 155953
جواب نمبر: 155953
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:159-133/D=3/1439
جی ہاں دے سکتے ہیں، لیکن قبول کرنے نہ کرنے کا پورا حق دوسرے مسلمان کو حاصل رہے گا۔
خاندانی برتری یا اونچ نیچ کا جاہلانہ تصور اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے، البتہ لڑکی کا نکاح کرتے وقت چند چیزوں میں لڑکے کا اس کے برابر یا بہتر ہونے کا خیال رکھنا ضروری ہے جسے کفاء ت کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کا ہم کفو اور برابر ہو تاکہ زوجین میں مزاج کا توافق رہے اور مصالح نکاح خوشگوار طور پر حاصل ہوسکیں، چنانچہ قریش (خاندان نبوت) اور خاندان خلفائے راشدین ایک دوسرے کے کفو ہیں، اسی طرح دین داری اور ذریعہ معاش یا پیشہ کے لحاظ سے کفاء ت ضروری ہوتی ہے، اس طرح کی کفاء ت کا اعتبار صرف نکاح میں کیا گیا ہے اور وہ بھی صرف لڑکی کے حق میں کیونکہ لڑکی اپنا نکاح جب ایسے شخص کے ساتھ کرلے جو فسق وفجور میں مبتلا ہونے یا ذریعہ معاش کے کمتر وگھٹیا ہونے کی وجہ سے لڑکی کے اولیا کے لیے باعث عار ہو تو ایسے نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار اولیاء کو حاصل ہوتا ہے اسی بنا پر لڑکی کے اولیاء کو ہدایت دی گئی ہے کہ لڑکی کا نکاح ہم پلّہ گھرانے میں کرو ایسے شخص کے ساتھ مت کرو جہاں رہنے میں لڑکی عار محسوس کرے، اس حد تک شریعت نے کفاء ت کا اعتبار کیا ہے وہ وہ بھی لڑکی کے حق میں اور رشتہ منتخب کرتے وقت تاکہ مصالح نکاح پورے طور پر حاصل ہوں۔ ذریعہ معاش کا تعلق عرف اور رواج سے ہے کوئی ذریعہ معاش اور پیشہ اعلیٰ سمجھا جاتا ہے اور کوئی کمتر سمجھا جاتا ہے جسے ہرشخص بداہةً محسوس کرتا ہے اور یہ بھی عار اور عزت کا سبب ہوتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند