• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 42447

    عنوان: اسلام لانے كے بعد نكاح

    سوال: میں ایک نو مسلم ہوں اور میں یہ جاننا چاہتی ہو کہ میرا نکاح ہے تو بچہ جائز ہے یا نہیں؟ مسلم ہونے سے پہلے میرا نکاح ایک عیسائی آدمی سے ہوا تھا رخصتی بھی ہوچکی تھی لکن ہم بستری نہیں ہوئی تھی کیوں کہ میں اسے اپنے قریب نہیں آنے دیتی تھی اور شادی کی پہلی رات ہی میں نے اسے یہ بات بتا دی تھی کہ میں بہت جلدی واپس چلی جاؤں گی .مجھے یہ بتایا گیا کہ مذہب بدلتے ہی اور مسلمان ہوتے ہی پہلا نکاح ٹوٹ جاتا ہے اس لئے میں نے مسلمان ہونے کے بعد غیر مسلم آدمی سے طلاق لئے بغیر مسلمان آدمی سے نکاح کر لیا اور ابّ میں ۸ ماہ کے حمل سے بھی ہوں میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ میرا نکاح جائز ہے یا نہیں اور ایسے بچے کے بارے میں کیا حکم ہیں؟

    جواب نمبر: 42447

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1205-1302/N=1/1434 (۱) اور (۲) اگر میاں بیوی دونوں دارالاسلام میں ہوں اورعورت مسلمان ہوجائے اور شوہر بدستور کفر (اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب خواہ وہ عیسائیت ہو یا کوئی اور) پر باقی رہے تو بذریعہ اسلامی قاضی شرعی طریقہ پر دونوں کے درمیان تفریق سے پہلے عورت اپنے کافر شوہر کے نکاح سے خارج نہ ہوگی اور اس کا نکاح کسی اور مرد سے جائز نہ ہوگا، قال في رد المحتار (کتاب النکاح باب نکاح الکافر: ۳۵۹، ط: مکتبہ زکریا دیوبند): وما لم یفرق القاضي فہو زوجتہ حتی لو مات الزوج قبل أن تسلم امرأتہ الکافرة وجب لہا المہر أي: کمالہ وإن لم یدخل بہا․․․ إھ اس لیے صورت مسئول عنہا میں آپ نے جس وقت اسلام قبول کیا اس وقت اگر آپ دونوں میاں بیوی کسی دارالاسلام میں تھے اور پھر آپ نے بذریعہ اسلامی قاضی شرعی طریقہ پر تفریق اور تفریق کے بعد عدت گذارے بغیر کسی مسلمان مرد سے نکاح کرلیا تو یہ نکاح شرعاً باطل اور غیرمعتبر ہے، آپ اب بھی قبل از اسلام کی طرح اپنے عیسائی شوہر ہی کے نکاح میں ہیں اور تفریق شرعی سے پہلے اگر آپ کو کوئی اولاً ہوئی تو اس کا نسب آپ کے عیسائی شوہر ہی سے ثابت ہوگا، اس مسلمان مرد سے اس کا نسب ثابت نہ ہو گا جس سے آپ نے تفریق کے بغیر نکاح کیا ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم - في حدیث طویل - ہو لک یا عبد بن زمعة، الولد للفراش وللعاہر الحجر ․․․ متفق علیہ (مشکاة شریف کتاب النکاح باب اللعان الفصل الأول: ص۲۸۷)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند