• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 160308

    عنوان: ولیمہ اور نکاح کی دعوت مشترکہ طور پر کرنے کا حکم

    سوال: ہمارے شہر (بنگلور)میں چند سالوں سے یہ رواج چل پڑا ہے کہ نکاح کے موقع پر لڑکے والے لڑکی والوں سے یہ کہتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ آپ نکاح کی دعوت الگ کریں اور ہم الگ ولیمہ کی دعوت کریں ایک ہی دعوت ولیمہ کی دھوم دھام سے کریں گے ، لہذا کچھ پیسے لڑکی والوں سے لیکر ولیمہ کرتے ہیں" اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ (لڑکی والے ) شادی ہال کا خرچ دیدیں باقی ولیمہ کی مکمل دعوت ہماری طرف سے ہوگی علماء کرام اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں کہ اس طرح کے ولیمہ کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟

    جواب نمبر: 160308

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:766-150T/N=1/1440

     نکاح کے بعد اسی دن شب زفاف سے پہلے ولیمہ کرسکتے ہیں، سنت ولیمہ ادا ہوجائے گی؛ البتہ افضل یہ ہے کہ شب زفاف کے بعد ولیمہ کیا جائے؛ کیوں کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش کا ولیمہ زفاف سے پہلے فرمایا، پس اس سے نفس سنت کی ادائیگی ثابت ہوئی؛ البتہ اکثر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ولیمہ زفاف کے بعد ہوا جیسے دیگر ازواج مطہرات کے نکاح میں ولیمہ زفاف کے بعد ہوا (فتاوی دار العلوم دیوبند ۷: ۱۶۷، سوال: ۲۱۰، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، نفائس الفقہ، ۲: ۱۵۳-۱۶۰، مطبوعہ: فیصل پبلی کیشنز، دیوبند، فتاوی عثمانی مع حاشیہ، ۲: ۳۰۲، ۳۰۳، مطبوعہ: مکتبہ معارف القرآن کراچی) اور نجاشی شاہ حبشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت ام حبیبہسے کیا اور لوگوں کو کھانا کھالیا، اور یہ رخصتی سے پہلے ہوا، پس معلوم ہوا کہ زفاف سے پہلے بھی ولیمہ ہوسکتا ہے، سنت ادا ہوجائے گی۔

    ذکر ابن السبکي أن أباہ………قال: والمنقول من فعل النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنھا بعد الدخول (فتح الباری، ۹: ۲۸۷)، ولیمة العرس سنة وفیھا مثوبة عظیمة، وھي إذا بنی الرجل بامرأتہ ینبغي أن یدعو الجیران والأقرباء والأصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما کذا في خزانة المفتین (الفتاوی الھندیة، کتاب الکراہیة، الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات، ۵: ۳۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    اب عام طور پر لوگ شادی بیاہ، شادی ہال ہی میں کرتے ہیں اور شادی ہال کا کرایہ معمولی نہیں ہوتا؛ اس لیے اگر لڑکی والے نکاح کے لیے الگ شادی ہال بک کرائیں اور بڑی دعوت کریں اور لڑکے والے ولیمہ کے لیے دوسرے دن شادی ہال بک کرائیں اور نکاح اور ولیمہ دونوں میں تمام رشتہ داروں کو مدعو کرکے لمبی دعوت کا نظم کیا جائے تو اس میں اخراجات ناقابل براداشت ہوتے ہیں؛ اس لیے اگر کوئی شخص زفاف سے پہلے ہی نکاح کے ساتھ ہی ولیمہ کردیتا ہے یا باہمی اتفاق سے لڑکی والے شادی ہال کا کرایہ برداشت کرلیتے ہیں اور لڑکے والے (سادگی کے ساتھ) ولیمہ کا نظم کرلیتے ہیں یا دونوں فریق اپنے اپنے مہمانوں کے بہ قدر اخراجات برداشت کرتے ہیں تو ان پر طعن وتشنیع وغیرہ کرنے کی ضرورت نہیں؛ کیوں کہ نفس ولیمہ کی سنت اس صورت میں بھی ادا ہوجاتی ہے؛ البتہ اگر لڑکی والے اپنے مہمانوں کے بہ قدر خرچہ برداشت کرتے ہیں تو یہ دعوت لڑکی والوں کے مہمانوں کے لیے ولیمہ نہ ہوگی۔

    مستفاد: المسافرون إذا خلطوا أزوادھم، أو أخرج کل واحد منھم درھماً علی عدد الرفقة، واشتروا بہ طعاماً وأکلوا فإنہ یجوز وإن تفاوتوا فی الأکل کذا في الوجیز للکردري (الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الحادي عشر فی الکراھة فی الأکل وما یتصل بہ، ۵: ۳۴۱، ۳۴۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    اور اگر لوگ نکاح سادگی کے ساتھ مسجد میں کرلیاکریں، اور شب زفاف کے بعد دوسرے دن لڑکے والے میانہ روی کے ساتھ دعوت ولیمہ کرلیا کریں تو یہ بہتر ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں ولیمہ افضل طریقہ ہوگا اور نکاح کی دعوت کا جو عام رواج ہوتا جارہا ہے جب کہ وہ مسنون بھی نہیں ہے، وہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوجائے گی۔

    لوگوں کو چاہیے کہ شادی بیاہ کے سلسلہ میں سادگی پر آئیں، رسومات وخرافات اور نام ونمود کی تمام شکلوں سے پرہیز کریں؛ کیوں کہ شادی بیاہ اسلام میں محض دنیوی کام ہے؛ بلکہ اس میں عبادت کا پہلو ہے؛ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کراموغیرہم سے شادی بیاہ کے سلسلہ میں جو سادگی ثابت ہے، امت کو اس پر آنا چاہیے، اسراف، فضول خرچی، پر تکلف دعوت، جہیز اور مختلف رسوماتی لین دین وغیرہ سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، اللہ تعالی توفیق عطا فرمائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند