• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 145946

    عنوان: کیا بیوی کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کا کام کرے ؟

    سوال: کیا بیوی کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کا کام کرے ؟ جیسے اسے وقت پر کھانا دینا۔ اس کے کپڑے دھونا۔اس کو صبح اٹھ کر ناشتہ دینا وغیرہ؟ میں نے سنا ہے یہ سب عورت (بیوی) کے فرائض میں شامل نہیں۔ کیا یہ درست ہے ؟

    جواب نمبر: 145946

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 120-017/D=2/1438

     

    اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو الگ الگ ذمہ داریاں اور حقوق عطا کئے ہیں، البتہ مرد کوعورت پر ایک درجہ فضیلت دی ہے، جس طرح مرد پر عورت کا نان و نفقہ وغیرہ فرض کیا ہے، اسی طرح عورت پر شوہر کی فرماں برداری اور رضا جوئی بھی لازم کی ہے، اسی کے ساتھ دونوں پر حسن معاشرت بھی لازم ہے، اس حسن معاشرت کا تقاضہ ہے کہ زوجین اپنے کام مل بانٹ کرکے کیا کریں، اگر چہ عورت پر یہ سب کام فرض نہیں ہیں، پھر بھی اس کا اخلاقی فریضہ تو ہے ہی کہ جب شوہر باہر کے کام انجام دے رہا ہے ، تو وہ گھر کے اندرونی کام کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے مابین اسی طرح تقسیم کار فرمایا تھا کہ گھر کے باہر کے کام حضرت علی کے ذمہ اور اندرونی کام کھانا پکانا، پانی بھرنا صاف صفائی کرنا حضرت فاطمہ کے ذمے کئے تھے۔ حکم النبي - صلی اللہ علیہ وسلم - بین علي بن أبي طالب وبین زوجتہ فاطمة-رضي اللہ عنہا- حین اشتکیا إلیہ الخدمة، فحکم علی ”علي“ بالخدمة الظاہرة، وحکم علی ”فاطمة“ بالخدمة الباطنة-خدمة البیت - وقال ابن حبیب: الخدمة الباطنة: العجین، والطبخ والفرش، وکنس البیت واستقاء الماء وعمل البیت کلہ (من معین الشمائل) ۔

    لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا کام عورت کے ذمے ڈال کر اس سے نوکرانی کی طرح کام لیا جائے، اور اس کا بالکل تعاون نہ کیا جائے؛ بلکہ اس سلسلے میں اللہ کے رسول ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ عن الأسود قال: سألت عائشة: ما کان النبي-صلی اللہ علیہ وسلم- یصنع في بیتہ، قالت: کان في مہنة أہلہ؛ تعني خدمة أہلہ (بخاری شریف: ج: ۶۷۶)۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں اس کی خاندانی حیثیت کا بھی لحاظ کیا جائے، یعنی اگر وہ اپنے گھر میں گھر کے کام خود کرتی تھی تو اسے سسرال میں بھی انکار نہیں کرنا چاہئے، اور اگر اس کے گھر میں خادمائیں وغیرہ تھیں اور وہ گھر کے کام خود نہیں کرتی تھی، تو شوہر کو بھی دباوٴ ڈال کر کام نہیں کروانا چاہئے، اور اس کو اس کی جانب سے تبرع اور احسان سمجھا جائے، فقہاء نے ا س کی صراحت کی ہے۔ امتنعت المرأة من الطحن والخبز، إن کانت ممن لاتخدم أو کان بہا علة فعلیہ أن یأتیہا بطعام مہیأ؛ وإلا فإن کانت ممن تخدم نفسہا وتقدر علی ذلک لایجب علیہ (الدر مع الرد: ۵/۲۹۰)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند