معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 177051
جواب نمبر: 177051
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:355-141/sn=6/1441
منگنی کے موقع پر یا بعد میں کسی وقت اگر کوئی چیزلڑکی کو بہ طور مہر دی گئی تھی تو زید کے گھروالے اسے واپس لے سکتے ہیں، اگر وہ چیز باقی نہیں ہے ؛ بلکہ استعمال ہو کر ختم ہوگئی ہے تو اس کا بدل لے سکتے ہیں ؛ رہی وہ چیزیں جو بہ طور ہبہ دی گئی ہیں تو ان میں سے جو استعمال ہوکر ختم ہوگئیں وہ تو ختم ہوگئیں ؛ البتہ جو چیزیں باقی ہوں انھیں دونوں فریق باہمی تراضی سے ایک دوسرے سے واپس لے سکتے ہیں ۔ اگر کوئی فریق دینے پر آمادہ نہ ہو تو دوسرا جبرنہیں کرسکتا ۔
(خطب بنت رجل وبعث إلیہا أشیاء ولم یزوّجہا أبوہا فما بعث للمہر یسترد عینہ قائما) فقط وإن تغیر بالاستعمال (أو قیمتہ ہالکا) لأنہ معاوضة ولم تتم فجاز الاسترداد (وکذا) یسترد (ما بعث ہدیة وہو قائم دون الہالک والمستہلک) لأنہ فی معنی الہبة....(قولہ ولم یزوجہا أبوہا) مثلہ ما إذا أبت وہی کبیرة ط (قولہ فما بعث للمہر) أی مما اتفقا علی أنہ من المہر أو کان القول لہ فیہ علی ما تقدم بیانہ (قولہ فقط) قید فی عینہ لا فی قائما، واحترز بہ عما إذا تغیر بالاستعمال کما أشار إلیہ الشارح. قال فی المنح لأنہ مسلط علیہ من قبل المالک فلا یلزم فی مقابلة ما انتقص باستعمالہ شیء ح (قولہ أو قیمتہ) الأولی أو بدلا لہ لیشمل المسمی (قولہ لأنہ فی معنی الہبة) أی والہلاک والاستہلاک مانع من الرجوع بہا، وعبارة البزازیة لأنہ ہبة اہ ومقتضاہ أنہ یشترط فی استرداد القائم القضاء أو الرضا، وکذا یشترط عدم ما یمنع من الرجوع، کما لو کان ثوبا فصبغتہ أو خالطتہ، ولم أر من صرح بشیء من غیر ذلک فلیرجع إلخ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 304،باب المہر، ط: مکتبة زکریا، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند