عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 62656
جواب نمبر: 62656
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 135-166/D=3/1437-U قال تعالیٰ: أینما کنتم فثم وجہ اللہ (البقرہ: ۱۱۵) وقال: ہو معہم أینما کانوا (المجادلة: ۷) وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لو أنکم دلّیتم بحبل إلی الأرض السفلی لہبط علی اللہ (رواہ الترمذي) اس طرح کی نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے“ باقی اس کی کیفیت کیا ہے؟ تو اہل سنت والجماعت میں سے حضرات سلف فقہاء ومحدثین کا مسلک یہ ہے کہ جتنی بات نصوص سے ثابت ہے بس اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، باقی اس کی کیفیت کو علم الٰہی کے حوالے کردیا جائے وہو امراہا کما جاء ت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل․․․ وہذا مذہب السلف وہو أسلم (کذا في التفسیر لابن کثیر الأعراف) البتہ اہل سنت والجماعت میں سے حضرات متأخرین نے تقریب الی الفہم کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ محتاط تاویلیں کی ہیں، چنانچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ہرجگہ موجود ہونے کو علم وقدرت، اور قرب ومعیت کے ساتھ موٴول کیا ہے، یہ تاویلات متأخرین سے ثابت ہیں اور ان کے ثبوت سے مسلک سلف پر کوئی زد بھی نہیں پڑتی کیوں کہ حضرات متأخرین نے ان تاویلات کو حتمی اور یقینی قرار نہیں دیا بلکہ تقریب الی الفہم کے لیے امت کو تشبیہ وتعطیل کی گمراہی سے بچانے کے لیے ثانوی درجے میں ان تاویلات کو ذکر یا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مسلک سلف کے اسلم ہونے کی صراحت بھی کی ہے۔ (شرح عقائد امداد الفتاوی) یہ دونوں مسلک (مسلک سلف، مسلک خلف) برحق ہیں اہل سنت والجماعت کے موقف ہیں اکابر علمائے دیوبند کا اصل مسلک تو مسلک سلف ہے البتہ ثانوی درجے میں وہ مسلک خلف کی بھی اجازت دیتے ہیں (المہند علی المفند امداد الفتاوی فتاوی دارالعلوم وغیرہ) رہا جہمیہ تو وہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو سرے سے صفات باری ہی کا منکر ہے، علامہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الجہمیة: ہذہ فرقة تنسب إلی جہم بن صفوان الترمذي وکان ینکر صفات الرب تبارک وتعالیٰ ویقول: إن الصفات تنافي بساطة الذات وتنزیہہا․ (العرف الشذی: ۲/ ۲۱۹)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند