عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 610098
تقدیر كے سلسلے میں شكوك
سوال : آپ تمام مفتیان صاحبان کو دنیا اور آخرت میں عافیت عطا فرمائے، حضرت میرا مسئلہ ہے کہ مجھے وسوسوں نے بہت پریشان کیا ہوا ہے کبھی اللہ تعالی کے بارے میں کبھی نیکی اور برائی کے بارے میں کبھی کچھ کبھی کچھ ۔ سب سے زیادہ بڑا مسئلہ تقدیر کے بارے میں بڑی الجھن ہوتی ہے یہ میری جان ہی نہیں چھوڑتی مجھے لگتا ہے میرا ایمان کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔میں سوچتا ہوں جب ہر ایک چیز اللہ ہی کے حکم سے ہوتی ہے تو اس میں بندے کا کیا قصور اللہ نے پیدا ہونے سے پہلے ہر ایک چیز بندے کے بارے لکھ دی ہے کہ بندہ کون کون سے گناہ کرے گا رزق کتنا ہوگا وغیرہ وغیرہ وہ آتا ہے اس سے کوٸی برا کام سرزد ہو جاتاہے لیکن یہ بھی ہوتا اللہ ہی مرضی ہے اللہ تعالی کو گناہ بہت نفرت ہے اگر بندہ گناہ کے قریب جانے لگتا تو اللہ تعالی بچا بھی تو سکتے تھے وہ گناہ کرتا ہی کیوں دوسرا مسلہ شیطان کا ہے اللہ تعالی کو بخوبی علم ہے میرے بندے کو بہکاتا ہے پھر کندھوں پہ فرشتے بھی بیٹھے رہتے ہیں وہی شیطان بھی رہتا ہے تو کیا یہ لوگ اس کو بھگا نہیں سکتے یا دونوں ایک دوسرے کو نہیں دیکھتے یہ سب سمجھا دیجئے مجھےمیں بہت بہت پریشان ہوں ان وسوسوں سے اللہ تعالی کے بارے میں بہت خطرناک وسوسے آتے ہیں مجھے کچھ ایسی چیزیں سمجھائیے ، جس سے ایمان پختہ اورہو اللہ پر بھروسہ ہو میں کبھی اللہ سے مایوس نا ہوں اللہ آپ سب کو جزا ے خیر دے۔
جواب نمبر: 610098
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 533-229T/D-Mulhaqa=08/1443
آپ تقدیر كے مسئلے میں ہرگز غور و فكر نہ كریں، یہ ایك نازك مسئلہ ہے، حدیث میں اس مسئلے میں الجھنے كی ممانعت آئی ہے، ہمیں جو حكم ملا ہے، بس اس كو پورا كرنے كی كوشش كرنی چاہئے اور اجمالا بس تقدیر پر ایمان ركھنا چاہئے، باقی اس كی باریكیوں كو سمجھنا عقل انسانی سے ماورا ہے، عموما شكوك و شبہات اسی وقت پیدا ہوتے ہیں، جب انسان اپنے دائرے سے باہر قدم ركھتا ہے، تخلیق كائنات كی كیا حكمتیں ہیں، اللہ تعالی نے اس كائنات كا نظام كیسا بنایا ہے اور یہاں ہر چیز اور ہر واقعے كے پیچھے كیا كیا مقاصد كارفرما ہیں، اگر یہ سب باتیں انسان كی عقل اور علم میں آجائیں تو اس كا مطلب یہ ہوگا كہ انسان انسان نہ رہا، عالم الغیب بن گیا، حالانكہ انسان كی عقل محدود ہے، وہ خود اپنے وجود كے ہر حصے كی حكمت تخلیق معلوم كرنے پر بھی قادر نہیں، یہاں تك كہ وہ دماغ جس سے انسان سوچتا ہے، اس كابھی بڑا حصہ ابھی تك انسان كے سمجھ میں نہیں آیا كہ اس كا عمل كیا ہے؟ اس لیے آپ اس طرح كے امور كے پیچھے نہ پڑیں، اس كھوج میں پڑنا ہی خلاف عقل ہے، اگر یہ اجمالی حقیقت ذہن نشین ہوجائے تو ان شاء اللہ اس قسم كے وساوس و شبہات پریشان نہیں كریں گے اور اگر كبھی غیر اختیاری طور پر آئیں تو اپنے آپ كو كسی كام میں لگائیں اور ان كی طرف توجہ نہ كریں (مستفاد: فتاوی عثمانی: 1/149) بہتر یہ ہوگا كہ حكیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ كے ملفوظات كسی عالم دین سے سنتے رہا كریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند