• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 59250

    عنوان: مجھے اللہ كی ذات كے بارے میں بہت خیال آتے ہیں

    سوال: مجھے اللہ کی ذات کو لے کر بہت خیالات آیتے ہیں کیا میرا عقیدہ ٹھیک ہے ؟ اس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں آسمان پر بھی زمین پر بھی خشکی پر ہو یا پانی میں جو کچھ جو اللہ نے بنائی ہیں مخلوقات اللہ کی ذات بالکل کسی سے بھی نہیں ملتی وہ ذات کیسی ہے کیسی دیکھتی ہے اس کا علم صرف اور صرف وہ خود رکھتا ہے انسانی آنکھ کبھی بھی اللہ کی ذات کو نہیں دیکھ سکتی اور انسانی عقل میں وہ علم کبھی بھی نہیں آ سکتا جو اللہ کی ذات کو سمجھ سکے انسان کو اللہ کی ذات کو لے کر جیسے بھی جتنے بھی خیالات آتے ہیں وہ شیطان پریشان کرتا ہے وہ انسان کا ایمان خراب کرنا چاہتا ہے کیوں کے انسانی عقل اللہ کی ذات کا بالکل تصور کر ہی نہیں ہی سکتی انسانی عقل میں وہ علم آ ہی نہیں سکتا کسی بھی صورت کہ وہ رب کی ذات کو سمجھ لے اگر کوئی حوالہ ہے تو وہ بھی دی دیں اردو ترجمہ کہ ساتھ ۲) کیا یہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کی ذات کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچنا چاہیے ؟ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 59250

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 600-692/N=8/1436-U (۱) جی ہاں! آپ کا یہ عقیدہ صحیح ہے، علامہ طحاوی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب: عقیدة الطحاوی (ص ۹۰۸) میں ہے: لا تبلغہ الأوہام ولا تدرکہ الأفہام ولا یشبہ الأنام یعنی: انسانی اوہام وخیالات اللہ تعالیٰ کی ذات تک نہیں پہنچ سکتے (اس کا تصور نہیں کرسکتے) اور نہ ہی لوگوں کی فہم اور عقل اس کی حقیقت کا ادراک کرسکتی ہیں اور وہ کسی مخلوق سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا، قرآن کریم میں ہے: ولا یحیطون بہ علما (سورہٴ طہ آیت: ۱۱۰) یعنی: لوگوں کا علم اللہ تعالیٰ کا احادہ اور ادراک نہیں کرسکتا، اور ایک دوسری جگہ ہے: لَیْسَ کمثلہ شيءٌ (سورہٴ شوری، آیت: ۱۱) یعنی: کوئی چیز اس کے جیسی نہیں ہے۔ ابن ابی العز حنفی نے فرمایا: ہم اللہ تعالیٰ کو صرف اس کے اسمائے حسنی اور صفات سے پہچان سکتے ہیں، باقی وہ کیسا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ یہ صرف اللہ سبحانہ وتعالی جانتے ہیں (شرح العقیدة الطحاویة ۱:۸۴ مطبوعہ: موٴسسة الرسالة) اور اسلامی عقائد نامی کتاب (مرتبہ: حضرت مولانا محمد افضال الرحمن صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مفتی عبید الرحمن صاحب دامت برکاتہم ونظر فرمودہ: حضرت مولانا شاہ محمد ابرار الحق صاحب نور اللہ مرقدہ) میں ہے: عقیدہ نمبر۹: اللہ تعالیٰ کی ذات کی حقیقت اور اس کی باریکی کو کوئی نہیں جانتا، دنیا میں جاگتی ہوئی ان آنکھوں سے اس کو کسی نے نہیں دیکھا اور نہ کوئی دیکھ سکتا ہے، اس کو نشانیوں اور صفتوں سے سب پہچانتے ہیں۔ (۲) مسلم شریف (۱:۷۹ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند) میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان آکر کہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ یہاں تک کہ وہ کہے کہ تمھارے پروردگار کو کس نے پیدا کیا؟ توجب آدمی کو اس طرح کا وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگے اور مزید (غور وفکر) سے باز آجائے“، اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق غور وفکر نہ کرنی چاہیے، نیز جب انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کا ادراک نہیں کرسکتا، یہ چیز اس کے بس سے باہر ہے تو اس کا اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور وفکر کرنا خطرہ سے خالی نہ ہوگا۔ اور مسلم شریف وغیرہ کی بعض روایات میں آیا ہے کہ بعض صحابہٴ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کے خیالات اور وساوس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بعض روایات میں) استعاذہ کا حکم فرمایا اور بعض میں فرمایا کہ آمنتُ باللہ ورُسُلِہ کہہ لے۔ اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسنون یہ ہے کہ دونوں کو جمع کرلے (مرقاة المفاتیح ۱: ۲۲۸، مطبوعہ علمیہ) پس یوں کہے أعوذ باللہ من الشیطان، آمنتُ باللہ ورُسُلہ اور شعب الایمان وغیرہ کی ایک ضعیف روایت میں آیا ہے: اللہ تعالیٰ کی نعتوں میں غور وفکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور وفکر نہ کرو، یہ روایت اگرچہ بہت ضعیف ہے؛ لیکن اس کا مضمون صحیح ہے، متعدد نصوص کے اشارات وغیرہ سے ثابت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند