عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 59250
جواب نمبر: 59250
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 600-692/N=8/1436-U (۱) جی ہاں! آپ کا یہ عقیدہ صحیح ہے، علامہ طحاوی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب: عقیدة الطحاوی (ص ۹۰۸) میں ہے: لا تبلغہ الأوہام ولا تدرکہ الأفہام ولا یشبہ الأنام یعنی: انسانی اوہام وخیالات اللہ تعالیٰ کی ذات تک نہیں پہنچ سکتے (اس کا تصور نہیں کرسکتے) اور نہ ہی لوگوں کی فہم اور عقل اس کی حقیقت کا ادراک کرسکتی ہیں اور وہ کسی مخلوق سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا، قرآن کریم میں ہے: ولا یحیطون بہ علما (سورہٴ طہ آیت: ۱۱۰) یعنی: لوگوں کا علم اللہ تعالیٰ کا احادہ اور ادراک نہیں کرسکتا، اور ایک دوسری جگہ ہے: لَیْسَ کمثلہ شيءٌ (سورہٴ شوری، آیت: ۱۱) یعنی: کوئی چیز اس کے جیسی نہیں ہے۔ ابن ابی العز حنفی نے فرمایا: ہم اللہ تعالیٰ کو صرف اس کے اسمائے حسنی اور صفات سے پہچان سکتے ہیں، باقی وہ کیسا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ یہ صرف اللہ سبحانہ وتعالی جانتے ہیں (شرح العقیدة الطحاویة ۱:۸۴ مطبوعہ: موٴسسة الرسالة) اور اسلامی عقائد نامی کتاب (مرتبہ: حضرت مولانا محمد افضال الرحمن صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مفتی عبید الرحمن صاحب دامت برکاتہم ونظر فرمودہ: حضرت مولانا شاہ محمد ابرار الحق صاحب نور اللہ مرقدہ) میں ہے: عقیدہ نمبر۹: اللہ تعالیٰ کی ذات کی حقیقت اور اس کی باریکی کو کوئی نہیں جانتا، دنیا میں جاگتی ہوئی ان آنکھوں سے اس کو کسی نے نہیں دیکھا اور نہ کوئی دیکھ سکتا ہے، اس کو نشانیوں اور صفتوں سے سب پہچانتے ہیں۔ (۲) مسلم شریف (۱:۷۹ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند) میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان آکر کہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ یہاں تک کہ وہ کہے کہ تمھارے پروردگار کو کس نے پیدا کیا؟ توجب آدمی کو اس طرح کا وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگے اور مزید (غور وفکر) سے باز آجائے“، اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق غور وفکر نہ کرنی چاہیے، نیز جب انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کا ادراک نہیں کرسکتا، یہ چیز اس کے بس سے باہر ہے تو اس کا اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور وفکر کرنا خطرہ سے خالی نہ ہوگا۔ اور مسلم شریف وغیرہ کی بعض روایات میں آیا ہے کہ بعض صحابہٴ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کے خیالات اور وساوس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بعض روایات میں) استعاذہ کا حکم فرمایا اور بعض میں فرمایا کہ آمنتُ باللہ ورُسُلِہ کہہ لے۔ اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسنون یہ ہے کہ دونوں کو جمع کرلے (مرقاة المفاتیح ۱: ۲۲۸، مطبوعہ علمیہ) پس یوں کہے أعوذ باللہ من الشیطان، آمنتُ باللہ ورُسُلہ اور شعب الایمان وغیرہ کی ایک ضعیف روایت میں آیا ہے: اللہ تعالیٰ کی نعتوں میں غور وفکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور وفکر نہ کرو، یہ روایت اگرچہ بہت ضعیف ہے؛ لیکن اس کا مضمون صحیح ہے، متعدد نصوص کے اشارات وغیرہ سے ثابت ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند