• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 69652

    عنوان: تقدیر کا سہارا لے کر اعمال خیر میں کوتاہی کرنا؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید کہتا ہے کہ جب اللہ کو معلوم ہے کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی اور جس کے لے جہنمی ہونا لکھ دیا گیا ہے وہ ضرور جہنم میں جا ئے گا تو اب بندے کا کیا قصور ؟اگر اس کا جہنمی ہونا لکھا ہے تو وہ چاہے جتنے نیک اعمال کر لے اس سے کوئی عمل ہو ہی جا ئے گا جس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا ئے گا۔ براہ کرم اس سلسلے میں تشفی بخش جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع عمایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 69652

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1405-1464/L=01/1438 اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے اور جمیع ماکان و مایکون سے متعلق ہے، اس لئے جو کچھ ہو چکا یا ہورہا ہے یا ہونے والا ہے سب چیزوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اور اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بندوں کی تقدیریں لکھ دی ہیں ارشاد ہے جف القلم بما انت لاق (مشکاة) جو کچھ تم کو پیش آنے والا ہے تقدیر کا قلم اس کو لکھ کر خشک ہو چکا ہے، مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ آدمی مجبور ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اختیار دیا ہے، اسی اختیار پر قیامت میں اس سے مواخذہ ہوگا، اگر انسان پتھر کی طرح مجبور ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے حساب و کتاب نہ لیتے، اللہ تعالیٰ کا بروز قیامت انسان کا حساب لینا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان بالکل مجبور نہیں ہے اور یہ بات مشاہدہ میں بھی آتی ہے کہ جو شخص نیک کاموں میں ترقی کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نیک کاموں کی توفیق دیتے چلے جاتے ہیں اور جو دوسرے کاموں میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ اسی میں آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں، تقدیر کا سہارا لے کر اعمال خیر میں کوتاہی کرنا یا ا س میں سبقت نہ کرنا صحیح نہیں ہے حدیث شریف میں ہے: اعملوا فکل میسر لما خلق لہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کے سامنے تقدیر کی حیثیت بیان فرمائی تو صحابہ نے فرمایا: کیا ہم عمل کرنا چھوڑ دیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں تم عمل کرتے رہو ہر شخص کے لیے وہی آسان کیا جائے گا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے آدمی کبھی بھی دنیاوی کاموں میں تقدیر کا سہارا لے کر گھر نہیں بیٹھتا تو پھر دینی کاموں میں تقدیر کا سہارا لے کر گھر کیوں بیٹھے؟ واضح رہے کہ مسئلہ تقدیر ایک نازک مسئلہ ہے ا س میں غور و خوض اور بحث و تفتیش کی اجازت نہیں القدر سرمن اسرار اللہ تعالی لم یطلع علیہ ملکاً مقربا ولانبیا مرسلاً لایجوز الخوض فیہ والبحث عنہ بطریق العقل (شرح السنة: ۱/۱۴۱) صحابہٴ کرام ایک دفعہ کسی گفتگومیں مشغول تھے، آپ علیہ السلام تشریف لائے، فرمایا کیا گفتگو کر رہے تھے، عرض کیا تقدیر کے مسئلہ میں، یہ سن کر آپ علیہ السلام کا چہرہٴ مبارک غصہ سے سرخ ہوگیا پھر فرمایا کیا اس کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو یا میں اس کے لئے بھیجا گیا ہوں، ہلاک ہوگئے وہ لوگ جنہوں نے اس میں گفتگو کی (مشکاة: ۱/۲۲) اس لیے تقدیر کے بارے میں بحث کرنے او راس میں غور و خوض کرنے سے احتراز کرنا چاہئے او رکثرت سے اس دعاء کو پڑھنا چاہئے۔ اللہم مصرّف القلوب صرّف قلوبنا علی طاعتک ترجمہ: اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دل اپنی اطاعت و بندگی کی طرف پھیر دے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند