• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 54763

    عنوان: ہمارے نبی نور تھے یا بشر ؟

    سوال: ہمارے نبی نور تھے یا بشر ؟ قرآن میں میں نے پڑھا ہے کہ بشر ہیں، مگر کچھ علماء سے سنا ہے کہ حضور نور اوربشر ہیں ، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی نبی تھے، حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے فرشتے وجود میں آئے تھے، کیا ایسی کوئی حدیث ہے؟کیا حضور صلی پوری امت محمدیہ کی شفاعت کریں گے؟ کیا اور کوئی شفاعت کرسکتا ہے؟ کیا نبی کریم روضہ مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر سلام پیش کیا جائے تو سلام سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں؟اگر ہندوستان میں سلام پڑھا جائے تو کیا نبی وہاں حاضر ہوتے ہیں؟ اذان سے پہلے اور نماز کے بعد اجتماعی سلام پڑھنا کیسا ہے؟

    جواب نمبر: 54763

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1301-1365/N=11/1435-U (۱) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر؛ بلکہ افضل البشر ہیں اور صفتِ ہدایت کے لحاظ سے ساری انسانیت کے لیے مینارہٴ نور ہیں، یہی وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسانیت کوخدا تعالیٰ کا راستہ مل سکتا ہے اور جس کی روشنی تاقیامت درخشندہ وتابندہ رہے گی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوع کے اعتبار سے بشر ہیں اور صفتِ ہدایت کے لحاظ سے نور ہیں۔ (اختلاف امت اور صراطِ مستقیم ص۳۷) اور یہ بات صحیح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی ہونا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے تجویز ہوچکا تھا اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ فرشتے حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے پیدا کیے جاچکے تھے مگر ان دونوں باتوں سے یہ اخذ کرنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے وجود پذیر ہوچکے تھے اور آپ اس وقت نور بمعنی فرشتہ تھے غلط ہے؛ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے پیدا کیے جانے کی روایت ضعیف ہے، البتہ نبی تجویز ہونے کی روایت صحیح ہے، امام احمد رحمہ اللہ کی کتاب السنة (ص۳۹۸ حدیث نمبر: ۸۶۴) میں ہے: عن میسرة الفجر قال: قلت یا رسول اللہ! متی کتبت نبیًا؟ قال: ”وآدم بین الروح والجسد“، اور حاشیہ میں ہے: ”وإسنادہ صحیح“۔ (۲) شفاعت کبری آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے حق میں فرمائیں گے جو میدان محشر میں حساب وکتاب کا آغاز کرانے کے لیے ہوگی، باقی دیگر شفاعتیں امت محمدیہ میں سے بعض کے حق میں فرمائیں گے اور بعض کے حق میں نہیں۔ (۳) جی ہاں! اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض خاص خاص بندگانِ خدا کو بھی سفارش کرنے کا حق واختیار ملے گا جیسے حفاظ کرام اور ایمان والوں کے وہ بچے جو دنیا میں حالت نابالغی ہی میں انتقال کرگئے، وغیرہ۔ (۴،۵) جی ہاں! اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک کے پاس سلام پڑھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام سنتے ہیں اور اس کا جواب دیتے ہیں۔ اوراگر دور سے سلام پڑھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضر تو نہیں ہوتے، البتہ فرشتوں کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام پہنچادیا جاتا ہے، عن ابن مسعود رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”إن للّٰہ ملائکة سیّاحین في الأرض یبلّغوني من أمتي السلام“ رواہ النسائي والدارمي وعن أبي ہریرة رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”ما من أحد یسلّم عليّ إلا ردّ اللہ عليَّ روحي حتی أردّ علیہ السلام“ رواہ أبوداوٴد والبیہقي في الدعوات البیر، وفي روایة أخری عن أبي ہریرة : ”وصلّوا علي فإن صلاتکم تبلغني حیث کنتم“ رواہ النسائي (مشکاة شریف ص۸۶)، وعن أبي ہریرة رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”من صلّی عليّ عند قبري سمعتہ ومن صلّی علي نائیًا أُبلغتہ“ رواہ البیہقي في شعب الإیمان (حوالہ بالا ص۸۷)۔ (۶) اہل بدعت کے یہاں اذان سے پہلے اور نماز کے بعد جو اجتماعی سلام مروج ہے یہ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نہ تابعین اور تبع تابعین وغیرہم سے؛ بلکہ یہ مخصوص قیودات کے ساتھ ان اہل بدعت کی ایجادِ نو ہے؛ اس لیے یہ درست نہیں، بدعت ہے اور اِس سے احتراز واجب ہے، آدمی انفرادی طور پر صیغہٴ خطاب کے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جس قدر چاہے درود شریف پڑھے اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ اس کے لیے عظیم سعادت ونیک بختی کی چیز ہے، عن عائشة قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد“ متفق علیہ (مشکاة شریف ص۲۷) وفي حدیث جابر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”وشر الأمور محدثاتہا وکل بدعة ضلالة“ رواہ مسلم (حوالہ بالا)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند