• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 164366

    عنوان: کیا تعویذ اسلام میں شرک ہے؟

    سوال: کیا تعویذ شرک ہے؟ اگر ہے، تو قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں۔ اور اگر شرک نہیں ہے، تو بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں؟

    جواب نمبر: 164366

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1256-1040/N=12/1439

    تعویذ علی الاطلاق شرک نہیں ہے، اگر تعویذ میں کوئی شرکیہ، کفریہ چیز نہ ہو، نیز ایسے الفاظ بھی نہ ہوں جن کے معنی معلوم نہ ہوں؛ بلکہ اس میں قرآنی آیات، اسمائے حسنی، منقول دعائیں یا کوئی جائز دعا وغیرہ ہو تو وہ تعویذ شرعاًجائز ودرست ہے، ایسے تعویذ کو شرک کہنا غلط ہے؛ البتہ تعویذ کو موٴثر بالذات نہ سمجھا جائے۔ اور اگر تعویذ میں کوئی شرکیہ، کفریہ چیز ہو، مثلاً اس میں غیر اللہ کی دہائی یا غیر اللہ سے استعانت کے الفاظ ہوں یا اس میں ایسے الفاظ ہوں جن کے معنی معلوم نہ ہوں تو وہ تعویذ درست نہیں، اس سے بچنا ضروری ہے۔

    عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ باللّٰہ بکلمات اللّٰہ التامة من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون، وکان عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ (سنن أبي داود، کتاب الطب، باب کیف الرقی، ص: ۵۴۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وقد جاء في بعض الأحادیث جواز الرقي، وفي بعضہا النہي عنہا، فمن الجواز قولہ علیہ السلام: استرقوا لہا فإن بہا النظرة أي أطلبوا لہا من یرقیہا ومن النہي قولہ لا یسترقون ولا یکتوون، والأحادیث في القسمین کثیرة، ووجہ الجمع بینہما أن الرقي یکرہ منہما ما کان بغیر اللسان العربي وبغیر أسماء اللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ وکلامہ في کتبہ المنزلة وأن یعتقد أن الرقیة نافعة لا محالة فیتکل علیہا وإیاہا (عمدة القاري، ۲۱: ۲۶۲، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)، ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فیہا القرآن، أو أسماء اللّٰہ تعالی، … وإنما تکرہ العوذة إذا کانت بغیر لسان العرب، ولا یدري ما ہو، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذٰلک، وأما ما کان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس بہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس ۹: ۵۲۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند نقلاً عن المجتبی)، وأما ما کان من الآیات القرآنیة والأسماء والصفات الربانیة والدعوات المأثورة النبویة فلا بأس؛ بل یستحب، سواء کان تعویذًا أو رقیةً أو نشرةً، وأما علی لغة العبرانیة ونحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ۸: ۳۶۰، ۳۶۱، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، نیز احسن الفتاوی (۸: ۲۵۶) دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند