• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 605168

    عنوان:

    الزامی طور پر رضا بالکفر کا حکم

    سوال:

    1- ایک قادیانی کو میں سمجھا رہا تھا کہ مرزا غلام لعنت اللہ علیہ کافر ہے اور آپ اگر اس کے نبی ہو نے سے انکار نہیں کروگی تو آپ بھی کافر بلکہ کافروں سے بھی بدتر ہو.بات بہت بڑھتی گئی لیکن اس کو بات سمجھ نہیں آرہی تھی. آخر اس نے کہ دیا کہ اگر میں ثابت کروں تو کیا آپ مرزا غلام کو مانیں گے ؟ میں نے کہا ہاں (اس وقت میرے ذہن میں چل رہا تھا کہ یہ اب کوئی بات کہے گی تو میں اس کواس کے ہی بات میں پھنسا لوں گا) بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے تو کفریہ الفاظ کہے ہیں. میں نے اللہ رب العزت سے معافی مانگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت مرتبہ درود شریف بھی بھیجی. میں نے کلمہ شہادت بھی پڑھی اور مرَزا غلام کو بددعا بھی دے دی. تو کیا اب میں مسلمان ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟

    2- میں اس رمضان میں تراویح پڑھا رہا تھا. اللہ گواہ ہے تراویح کے عوظ کچھ لینے کا میرا کوئی مطالبہ نہیں تھا لیکن پھر بھی ایک صاحب نے 27 رمضان المبارک کو مجھے ایک عدد کپڑا دے دیا جس سے میں نے اس وجہ سے انکار نہیں کیا کہ کہی اسے برا نہ لگ جائے . اب اس کپڑے کا میں کیا کروں؟ کیا اسے میں استعمال کر سکتا ہوں؟ اور یہ کپڑا مجھے بطور صدقہ ملا ہے یا بطور ھدیہ؟

    جواب نمبر: 605168

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:884-304T/sn=12/1442

     آپ کو اس طرح کا جملہ نہیں کہنا چاہئے تھا؛ لیکن چوں کہ آپ کا مقصد قادیانت پر رضامند ہونا نہ تھا؛ بلکہ سامنے والے کو بحث پر آمادہ کرکے اسے لاجواب کرنا مقصد تھا اس لئے صورت مسئولہ میں آپ پر ایمان سے خارج ہونے کا حکم نہیں لگے گا، بس آئندہ احتیاط کریں۔

    (2) آپ اگر معذرت کردیتے تو اچھا تھا؛ لیکن جب لے ہی لیا تو اسے استعمال کرلیں، یہ آپ کے حق میں ”ہدیہ“ ہی ہوگا؛ کیوں کہ انفرادی طور پر اتفاقا کسی کی طرف پیش کش میں ”ہدیہ “ کا پہلو غالب ہوتا ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند