عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 69349
جواب نمبر: 69349
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 785-677/D=11-1437 بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے جو بات کہی گئی تھی پھر اسے مسلمانوں کے لیے نقل کیا گیا اس کا مقصد یہی ہے کہ بے گناہ کسی نفس کو قتل کرنا بہت بُرا ہے اسی بنا پر قتل نفس کی مذمت بنی اسرائیل سے ہی بیان کی گئی تھی جس طرح روزے کی فرضیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: یٰآیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کُمَا کَتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ الایة․ فرق یہ ہے کہ روزے میں کُتِبَ عَلَیْکُمْ سے خطاب خاص مسلمانوں کو کردیا گیا۔ اور قتل نفس کے بیان میں قتل نفس کی مذمت پہلے سے بیان کی جارہی ہے پھر بنی اسرائیل کو دئیے گئے حکم سے اس کی مزید تاکید ظاہر کی جارہی ہے۔ یہ اسلوب بیان کے طریقے ہیں۔ نوٹ: مزید وضاحت کے لیے بیان القرآن دیکھئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند