عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 22361
جواب نمبر: 22361
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل):909=253tl-6/1431
ان جیسے مسائل کا تعلق نیت اور عقیدہ پر ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہم کو اس نیت اور عقیدہ سے پکارنا کہ وہ ہماری آواز سن کر ہماری رہبری اور مدد کریں گے، شرک ہے۔ البتہ اس عقیدہ سے خالی ہوکر محض جذبہ محبت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح خطاب کرنا جس میں بظاہر استمداد کا شبہ ہو شرک نہیں جس طرح شعراء فرط محبت میں اپنی محبوبہ وغیرہ کو خطاب کرتے ہیں جب کہ ان کا عقیدہ یہ بالکل نہیں ہوتا کہ میرا محبوب حاضر اور سن رہا ہے بلکہ وہ فرطِ محبت میں اس طرح کلام کرتے ہیں اور گویا غایب کو دل میں حاضر کرکے اس سے حاضر جیسا معاملہ کرتے ہیں، ہمارے اسلاف واکابر سے جو اس طرح کے اشعار منقول ہیں وہ اسی قبیل سے ہیں اور اس کی دلیل حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ کی کتاب ”علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج“ ہے۔ حضرت نے اس کتاب میں علمائے دیوبند کے عقائد کو بسط وتفصیل سے لکھا ہے اور اس عقیدہ کی تردید کی ہے، جب کہ حضرت کی مشہور نعت ”نبی اکرم شفیع اعظم الخ“ میں خود کچھ ایسے جملے ہیں جن سے استمداد کا پتہ چلتا ہے۔ سائل بالعموم جاہل ہوتے ہیں اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ودیگر صحابہ واولیاء کو خطاب حاضر و ناظر اور ممد ومعاون سمجھ کر کرتے ہیں اس لیے ہ جواب لکھ دیا جاتا ہے جو سوال میں مذکور ہے، ہاں اگر کوئی اس عقیدہ سے خالی ہوکر ان کو اس طرح خطاب کرے جس میں استمداد کا شبہ ہو وہ اس میں شامل نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند