• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 607812

    عنوان:

    المدد یا رسول اللہ یا یا مدد غوث اعظم کہنا کیسا ہے ؟

    سوال:

    سوال : اگر ایک شخص کا عقیدہ ہو کے مدد کرنے والی ذات صرف اللہ ہے ۔اللہ تعالی کے حکم کے علاوہ ایک ذرہ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہو سکتا ۔ لیکن اللہ کی دی ہوئی طاقت سے انبیاء ،ملائکہ اور اولیاء بھی مدد کرتے ہیں ۔ اگر ہم ان سے مدد مانگتے ہیں تو اس میں شرک نہیں ہے کیونکہ ہم وسیلہ مانگ رہے ہیں اور ان کی مدد اللہ کی عطا کردہ مدد ہے برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں اگر ایک شخص ایسا عقیدہ رکھتا ہو تو اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے سے وہ شخص مشرک ہو جائے گا ؟ جزاک اللہ خیرا

    جواب نمبر: 607812

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:175-183/H-Mulhaqa=5/1443

     اللہ تعالی کے علاوہ کسی نبی ،فرشتہ یاولی وغیرہ سے دعا کر نایافر یادکرنا جائزنہیں، دعا اورفریا دصرف اللہ تعالی سے جائز ہے ، وہی ہر بندے کی دعا اور فریاد سنتے ہیں ؟ اور بطور دعاوفر یاد غیر اللہ سے مدد مانگنا بھی جائز نہیں اور یہ وسیلہ نہیں ہے؛ کیوں کہ وسیلہ میں دعاوفر یا اللہ تعالی سے کی جاتی ہے اور دوسرے کا ذکر محض بہ طور واسطہ ہوتا ہے ، جیسے :اے اللہ! اپنے فلاں نیک بندے کے صدقہ طفیل میری فلاں پر یشانی دور فرما، وسیلہ میں غیر اللہ سے دعا نہیں کی جاتی، پس جو شخص غیر اللہ سے بطور دعا یا فریاد مانگنے کا قائل ہو، وہ اگر چہ سوال میں مذکور تاویل کی بنا پر مشرک نہیں کہا جائے گا لیکن بدعتی ہے اور بدعتی کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے ۔

    إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللہ تعالی من الأولیاء الأحیاء منہم والأموات وغیرہم، مثل: یا سیدی فلان! أغثنی، ولیس ذلک من التوسل المباح فی شء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوہ بذلک وأن لا یحوم حماہ، وقد عدہ أناس من العلماء شرکا، وإن لا یکنہ فہو قریب منہ، ولا أری أحداً ممن یقول ذلک إلا وہو یعتقد أن المدعو الحی الغائب أو المیت المغیب یعلم الغیب أو یسمع النداء ویقدر بالذات أو بالغیر علی جلب الخیر ودفع الأذی وإلا لما دعاہ ولا فتح فاہ، وفی ذلک بلاء من ربکم عظیم، فالحزم التجنب عن ذلک وعدم الطلب إلا من اللہ تعالی القوی الغنی الفعال لما یرید إلخ (روح المعانی للآلوسیی،۱۲۸:۶، ۱۲۹، سورة المائدة، رقم الآیة: 35)۔

    ویکرہ ... إمامة ... مبتدع أی صاحب بدعة، وہی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبہة.. لا یکفر بہا .......وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورة کفر بہا.. فلا یصح الاقتداء بہ أصلا ( الدر المختار مع الرد، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲۹۸:۲-۳۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند