• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 147582

    عنوان: اللہ کا وجود

    سوال: اگر ہم کسی دہریہ کو یہ کہیں کہ ایک چھوٹا سا ذرّہ خود بہ خود نہیں بن سکتا تو اتنی بڑی کائنات کیسے خود خود بہ خود بن گئی یعنی اس کا بنانے والا کوئی ہے جو اللہ ہے، تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جب کائنات خود بہ خود نہیں بن سکتی تو اس کو بنانے والا اللہ کیسے خود بہ خود بن گیا؟ اس سوال سے کافی دن پریشان رہا۔ از راہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 147582

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 650-673/Sn=7/1438

    اسلامی عقائد کی تمام باتیں ہرایک کے عقل کے مطابق ہوں یہ ضروری نہیں؛ اس لیے ”مخبر صادق“ کی خبر پر یقین کرنے پر ہی اکتفاء کرنا چاہیے، اور سارے انبیائے کرام نے اپنی اپنی امت کو اس بات کی خبر دی کہ اللہ ہرچیز کا خالق ومالک ہے، وہ ازل (ہمیشہ) سے ہے اور ابد (ہمیشہ) تک رہے گا، وہ اپنی ذات وصفات کے ساتھ قدیم ہے جس پر نہ کبھی ”فنا“ طاری ہوئی تھی اور نہ ہوگی اور اسی کی خبر ہمارے ہادی وپیغمبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دی ہے۔ اور ایک سچے مومن کی یہی شان ہے کہ تمام عقائد اسلام کو مانے چاہے عقلا سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں اور یہی اصل ہے۔ جہاں تک دہریہ کے اس شبہ کی بات ہے کہ ”جب کائنات خود بہ خود نہیں بن سکتی ہے تو اس کو بنانے والا کیسے خود بخود بن گیا“ تو اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو صحیح ہے کہ کائنات خود بخود نہیں بن سکتی، لیکن یہ کہنا کہ اس کو بنانے والا کیسے خود بخود بن گیا یہ غلط ہے، اس لیے کہ ”بننا“ اس بات کو چاہتا ہے کہ پہلے وہ چیز نہ ہو بلکہ بعد میں وجود میں آئی ہو یعنی اُس پر کسی وقت عدم طاری رہا ہو، حالانکہ کائنات کو بنانے والی ذات پر کبھی بھی عدم طاری نہیں ہوا؛ بلکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی؛ اس لیے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ وہ خود بخود کیسے بن گیا۔ نیز متکلمین اسلام اس طرح کے شبہ کا جواب یوں بھی دیاکرتے ہیں کہ اس بات کو ہرایک ماننے پر مجبور ہے ، یہ عالم (کائنات) خود بخود نہیں بن گیا بلکہ اس کا بنانے والا کوئی نہ کوئی ہے، اب وہ کون ہے اس میں تین احتمال ہیں:

    (۱) کوئی ایسا ہو جو خود موجود نہ ہو جس کو ممتنع کہتے ہیں۔

    (۲) یا کوئی ایسا ہو جس کا وجود اصلی نہ ہو یعنی پہلے وہ معدوم ہو پھر وجود میں آیا ہو جس کو ممکن کہتے ہیں۔

    (۳) یا کوئی ایسا ہو جس کا وجود ذاتی واَصل ہو جس پر کبھی بھی کسی بھی وقت عدم (نہ ہونا) طاری نہ ہوا ہو بلکہ وہ ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہنے والا ہو جس کو واجب الوجود کہتے ہیں۔

    ان تین احتمالات میں سے سب سے پہلے نمبر پر جو مذکور ہے وہ عالم کا خالق نہیں ہوسکتا کیونکہ جو خود موجود نہ ہو وہ کیسے دوسروں کو وجود دے سکتا ہے؛ لہٰذا وہ عالم کا بنانے والا نہیں ہوگا، اب دوسرے نمبر پر جس کا ذکرہے وہ بھی کائنات کا بنانے والا نہیں ھے اس لیے کہ جب کسی زمانے میں اُس پر عدم (نہ ہونا) پایا جاتا تھا تو وہ خود اس وقت وجود کا محتاج تھا، اور جو خود وجود کا محتاج ہو وہ کیسے کسی کو وجود بخش سکتا ہے جب یہ دونوں احتمال ختم تو لازمی طور پر یہ کہنا پڑے گا کہ اس کائنات کو وجود میں لانے والی کوئی ایسی ذات ہو جس پر نہ کبھی عدم طاری ہواہو اور نہ وہ اپنے وجود میں کسی کی محتاج ہو بلکہ وہ خود سب کو وجود عطا کرے لیکن اُسے کسی چیز کی ضرورت نہ ہو، اور وہ ذات باری تعالی کی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اُسی نے سب کو وجود بخشا ہے۔ دیکھیں شرح عقائد وشرحہ بیان الفوائد (۱۴۷-۱۴۸ط: امان بکڈپو افریقی منزل)

    ----------------------------------

    نوٹ: جواب درست ہے جس طرح گنتیوں کی ابتدا ایک سے ہوتی ہے اس سے پہلے کوئی گنتی نہیں اسی طرح اللہ کی ذات سے پہلے کچھ ہونے کا سوال نہیں ہوتا جب واحد مجازی کے پہلے کچھ نہیں ہے تو واحد حقیقی کے پہلے کچھ ہونے کا سوال کیسے پیدا ہوگا؟ (د)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند