• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 42080

    عنوان: كرنسیوں كا تبادلہ

    سوال: ابوبکر عدنان کو 10000ہزار ڈلر دیتا ہے اور واپسی کی صورت قسطوں میں سعودی ریال ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے بارہ ما ہ میں ہر ماہ چار ہزار ریال تو یہ ۰۰۰ریال بنتا ہے ۔ کیا یہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر فی الوقت ۰۰۰۰ ہزار ڈالرکے عوض سعودی ریال ۰۰بنتا ہے مگر یہ بھی ہے کہ صرافیین یعنی بنک یا منی اکسیچینجر ۰۰۰بھی دیتے ہیں اپنا منافع رکھ کر تو کیا اس صورت میں وہ ادھا ر دیں یا نقد ادا کریں تو کیا یہ صحیح ہوگا یا نھیں اگر صحیح ہے تو لہذا ۰۰۰ لینا اور جو مابین جس پر راضی ہو ں وہ بھی صحیح ہونا چاہیے اور غلط ہونے کی کیا صورت ہے؟

    جواب نمبر: 42080

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1304-1301/N=1/1434 دو ملکوں کی کرنسیاں باہم مختلف الجنس ہیں، ان میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ جائز ہے، اور ادھار معاملہ بھی جائز ہے، بشرطیکہ مجلس بیع میں کسی ایک عوض پر قبضہ کرلیا جائے، لئلا یکون بیع الکالئ بالکالئ المنہي عنہ في الحدیث اس لیے صورت مسئول عنہا میں ابوبکر کا عدنان کو دس ہزار ڈالر دے کر اس کے عوض ایک سال کے اندر ماہانہ متعینہ اقساط میں کل 48 ہزار سعودی ریال یا باہمی رضامندی سے دونوں کے درمیان طے شدہ کم یا زیادہ کوئی اور مقداروصول کرنا شرعی اعتبار سے بلاشبہ جائز ودرست ہے، البتہ اگر حکومت کی طرف سے اس قسم کے تبادلہ کی ممانعت ہو تو عزت وآبرو کی حفاظت کے پیش نظر ایسے تبادلہ سے احتراز کرنا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند