• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 30619

    عنوان: عبد الباسط کا انتقال ہوگیا ، انہوں نے اپنے پیچھے پہلی بیوی سے عبد الوصی اور دوسری بیوی سے عب النافع اور تین بیٹیوں کو چھوڑا۔ بعد میں عبدالباسط کی جائداد (وراثت )دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوئی اور تینوں بیٹیوں کو کچھ نہیں ملا ۔ اور بعد میں عبد الوصی اور عبد النافع کا بھی انتقال ہوگیا ہے اور ایک بیٹی نسیمن حیات ہے۔ اب وہ اپنے حصے کا مطالبہ اپنے بھتیجوں سے کررہی ہے ۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ ازروئے شرع ان کیا یہ مطالبہ درست ہے ؟ براہ کرم، اس پر روشنی ڈالیں۔ 

    سوال: عبد الباسط کا انتقال ہوگیا ، انہوں نے اپنے پیچھے پہلی بیوی سے عبد الوصی اور دوسری بیوی سے عب النافع اور تین بیٹیوں کو چھوڑا۔ بعد میں عبدالباسط کی جائداد (وراثت )دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوئی اور تینوں بیٹیوں کو کچھ نہیں ملا ۔ اور بعد میں عبد الوصی اور عبد النافع کا بھی انتقال ہوگیا ہے اور ایک بیٹی نسیمن حیات ہے۔ اب وہ اپنے حصے کا مطالبہ اپنے بھتیجوں سے کررہی ہے ۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ ازروئے شرع ان کیا یہ مطالبہ درست ہے ؟ براہ کرم، اس پر روشنی ڈالیں۔ 

    جواب نمبر: 30619

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل):390=288-3/1432

    شرعاً لڑکیاں بھی اپنے والدین کی وراث ہوتی ہیں، اگر ان کو ان کا حصہ نہ دیا جائے تو ان کا حصہ وراثت سے ختم نہیں ہوتا؛ اس لیے حیات لڑکی کا اپنے بھتیجوں سے اپنے حق کا مطالبہ کرنا درست ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند