• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 56495

    عنوان: متوفی کے محکمانہ فنڈز میں بیوہ اور والدین کا حصہ

    سوال: میری ہمشیرہ کی شادی کے دو ماہ بعد ہی ان کے شوہر جو کہ وفاقی سرکاری ملازم تھے کا انتقال ہو گیا۔ بیوہ سے مرحوم کی کوئی اولاد نہیں ہے ۔ عدت کے بعد محکمہ کی خاص ہدایت پر بیوہ کا بینک اکاوٴنٹ کھلوایا گاک جس میں مرحوم کے فنڈز جن میں ڈسیز فنڈ کے ۲۵۰۰۰۰۰ روپے اور ماہانہ پنشن کے علاوہ بیوہ کے نام کی زمین کے ۲۰۰۰۰۰۰ روپے سے ۲۵۰۰۰۰۰ روپے بھی شامل ہیں جمع ہونے ہیں۔ اس کے علاوہ محکمہ نے بیوہ کو مرحوم کی خالی اسامی پر ملازمت کی پیشکش بھی کی ہے ۔ سوال ہے کہ بیوہ کے اکاوٴنٹ میں محکمہ کی طرف سے مرحوم کے نام کے جمع ہونے والے فنڈز میں مرحوم کے والدین کا بھی کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اور اگر مرحوم کے والدین کا کوئی حصہ بنتا ہے تو کیسے ؟ پلیز قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیے ۔ جزاک اللہ خیرا۔

    جواب نمبر: 56495

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 60-60/D=1/1436-U (۱) بیوہ کے اکاوٴنٹ میں جو رقمیں آئی ہیں، ان کی اچھی طرح وضاحت کیجیے، ڈسیز فنڈ کیا ہوتا ہے اس کی تشریح کریں! (۲) بیوہ کے نام کی زمین کی وضاحت کریں : (الف) زمین مرحوم نے خرید کر بیوہ کے نام کردیا تھا اور بیوہ کو مالک وقابض بھی بنادیا تھا؟ (ب) یا زمین خریدکر صرف بیوہ کے نام کیا تھا، مالک وقابض نہیں بنایا تھا؟ (ج) یا مرحوم نے صرف خریدا تھا نہ بیوہ کے نام کیا نہ اسے قبضہ دیا ، بلکہ محکمہ نے بعد میں بیوہ کے نام کیا ہے۔ (۳) ماہانہ پنشن اگر بیوہ کے نام منظور کی گئی ہے تو اس کی مالک خود بیوہ ہوگی، مرحوم شوہر کے والدین کا اس میں حصہ نہ ہوگا۔ (۴) عورتوں کے لیے ملازمت کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، اگر معاشی تنگی کی وجہ سے اختیار کرتی ہے تو ضروی ہے کہ اس ملازمت میں جائز امور انجام دے، نیز نامحرموں کے ساتھ گفتگو اور اختلاط کی نوبت نہ آئے اور شرعی پردہ کے ساتھ بیر زیب وزینت آمد ورفت کرے،اگران شرطوں کو پوری کرسکتی ہے تو بدرجہٴ مجبوری محکمہ کی پیشکش بسلسلہٴ ملازمت قبول کرنا جائز ہوگا اور آمدنی کی مالک خود بیوہ ہوگی والدین کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ موجودہ حالات زمانہ کو دیکھتے ہوئے ملازمت نہ کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ قرآن کا واضح حکم عورتوں کے لیے یہ ہے کہ وَقَرْنَ فِي بُیُوتِکُنَّ یعنی اپنے گھروں میں قرار پکڑیں، بلاشدید ضرورت کے آنا جانا نہ کریں ، نیز عورت کی ملازمت میں شرعی اعتبار سے اور بھی مفاسد ہیں۔ (۵) مرحوم کی تنخواہ (جو حالت حیات میں ان کی جمع رہی ہو ) یا فنڈ جو مرحوم کی تنخواہ سے کسی مد میں جمع ہوا ہو یہ مرحوم کا ترکہ بنے گا جس میں مرحوم کی بیوہ کے ساتھ مرحوم کے والدین بھی اپنے اپنے حصہ شرعی کے حقدار ہوں گے، مذکورہ رقمیں اگر محکمہ نے بیوہ کے اکاوٴنٹ میں ڈالدی ہو تو بھی وہ مرحوم کا ترکہ بنیں گی اوروالدین اس میں حصہ دار ہوں گے۔ تخریج مسئلہ کی اس طرح ہوگی: بیوہ=۳ باپ=۷ ماں=۲ مرحوم کا قرض ادا کرنے (اگر ان پر قرض رہا ہو) کے بعد مابقی کے 1/3 (تہائی) میں سے جائز وصیت کی تنفیذکی جائے گی (اگر محروم نے کوئی مالی وصیت غیر وارث کے لیے کی ہو) بعدہ کل رقم اور سامان وجائیداد مملوکہ کے بارہ حصے کرکے تین حصے بیوہ کو دو حصے مرحوم کی والدہ کو سات حصے مرحوم کے والد کو ملیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند