• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 168345

    عنوان: کیا باپ اپنے بچوں کی کمائی ہوئی دولت وراثت میں تقسیم کرسکتا ہے؟

    سوال: استفتاء کیا فرماتے ہیں علماءِ دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ: بعض علاقوں میں لوگ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی گزارتے ہیں یعنی والد صاحب اور سارے بیٹے یا اگر والد صاحب نہ ہوں تو سارے بھائی مل کر رہ رہے ہوتے ہیں اور سب کا کھانا، پینا، لباس، علاج معالجہ وغیرہ کا مشترکہ طور پر انتظام کیا جاتا ہے یعنی جو گھر کا سربراہ ہوتا ہے ، والد صاحب یا بڑا بھائی وہ سب کے کھانے پینے ، لباس اور علاج معالجہ وغیرہ کا انتظام کر تا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک گھر میں والد صاحب کے ساتھ چار بیٹے ہیں۔ والد صاحب کا ذاتی کاروبار ہے ۔ایک بیٹا ملازمت کرتا ہے ، دوسرا بیٹا والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں کام کرتا ہے ، تیسرے بیٹے کی ایک دکان ہے لیکن اس کا سارا سامان وغیرہ والد صاحب اور بھائیوں نے مشترکہ طور پر خرید کر اس کے حوالہ کیا ہے ۔ چوتھا بیٹا تعلیم حاصل کر رہا ہے یا گھر کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے مختص کیا گیا ہے ۔ ہر بیٹا اپنی کمائی سے اپنے ذاتی اخراجات الگ کرکے باقی کمائی اپنے والد صاحب کے حوالے کرتا ہے اور والد صاحب اس سے گھر کے سارے اخراجات کا انتظام کرتا ہے ۔ اس صورتِ حال میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں: 1 -اگر ایک بھائی جو کہ ملازم ہے یا جس کے لیے دکان بنائی گئی ہے ، وہ اپنی کمائی سے کچھ رقم جمع کرتا رہے اور اس سے اپنے لیے کوئی پلاٹ خرید کر اپنے نام انتقال کروائے جبکہ دوسرے بھائیوں نے اپنی پوری کمائی والد صاحب کے پاس جمع کی یا گھر کے مشترکہ یعنی سب بھائیوں کے اخراجات میں صرف کی ہے ۔ اب اگر والد صاحب سب کو الگ کرکے ہر ایک کو اپنا اپنا حصہ دینا چاہیں تو کیا صرف والد صاحب کی ملکیتی زمین، آمدنی، کاروبار وغیرہ تقسیم کی جائے گی یا سارے بھائیوں کی ملکیت میں جو اثاثے ہوں گے وہ بھی تقسیم کئے جائیں گے ؟ 2 -اسی طرح اگر یہی صورتحال ہو اور والد صاحب وفات پا جائیں تواس صورت میں تقسیم کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ مذکورہ صورتوں میں اگر صرف والد صاحب کی ملکیت ہی تقسیم کی جائے اور الگ الگ ملکیت میں موجود پلاٹ وغیرہ کی تقسیم نہ کی جائے تو اس میں اُن بھائیوں کا حق مارا جائے گا جنہوں نے اپنی پوری کمائی مشترکہ اخراجات میں خرچ کیں۔ اسی طرح اس بھائی کا حق بھی مارا جائے گا جس نے والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں کام کیا یا گھر کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے اسے مختص کیا گیا حالانکہ اگر وہ اپنا الگ کاروبار کرتا تو وہ بھی ا پنے لیے جمع پونجی کر سکتا تھا۔ لیکن اب جب والد صاحب کی جائیداد یا کاروبار تقسیم ہورہا ہے جس میں اس بھائی نے کام کیا ہے ، اس میں اس بھائی کو دوسرے بھائیوں کے برابر حصہ ملے گا جبکہ باقی بھائیوں کے انفرادی پلاٹ وغیرہ صرف انہی کو ملے گا۔ 3- عام طور پر معاشرہ میں یہی چلتا ہے کہ والد صاحب کی وفات کے بعد ترکہ تقسیم کیے بغیر اسی طرح مشترکہ نظام چلتا رہتا ہے اور خواہ کوئی بھائی والد صاحب کے ترکہ میں کام کرتا رہے یا الگ کوئی کاروبار یا ملازمت کرتا رہے ساری آمدنی مشترکہ ہی سمجھی جاتی ہے ۔ اس صورت میں اگر کسی بھائی نے اپنے لیے کوئی جمع پونجی کرکے کوئی الگ کاروبار شروع کیا یا کوئی پلاٹ خریدا تو اس کا کیا حکم ہوگا جبکہ عرفِ عام میں اس کو مشترکہ سمجھا جاتا ہے ؟ 4- اگر مندرجہ بالا صورتوں میں والد صاحب کی وفات کے بعد بھائیوں نے ترکہ تقسیم کیے بغیرمشترکہ نظام کو باقی رکھتے ہوئے آپس میں معاہدہ کیا کہ تمام بھائی کام کریں گے اور مشترکہ طور پر گھر کے اخراجات برداشت کریں گے اور جو بھائی کسی بھی قسم کا کاروبار کرکے کمائی کرے گا، تمام بھائی اس میں شریک ہوں گے ، آخر میں ترکہ اور اس کے علاوہ ساری چیزیں آپس میں تقسیم کی جائے گی۔ اس صورت میں اگر کسی بھائی نے کوئی جمع پونجی کرکے پلاٹ خریدا یا کوئی کاروبار شروع کیا تو کیا والد کے ترکہ کے ساتھ اس کے ذاتی پلاٹ یا کاروبار کو بھی معاہدہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا؟ 5 -اس کے علاوہ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک عام صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ مثلاً تین بھائی ہیں تو والد صاحب کی زندگی میں یا وفات کے بعد مشترکہ نظام میں دو بھائیوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد اگر سب نے الگ الگ ہونا ہو تو عرف میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ غیر شادی شدہ بھائی کو اپنا حصہ سمیت شادی کے اخراجات بھی دیئے جائیں گے یا جب اس کی شادی ہو تو شادی کے اخراجات کو تین پر تقسیم کرکے ہر ایک کو ایک تہائی خرچہ برداشت کرنا ہوگا۔ خیبر پختونخواہ اور قبائل میں یہ صورت خصوصاً پائی جاتی ہے ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟ نوٹ: مذکورہ بالا صورتوں میں اگر کوئی بھائی گھر کے اخراجات کے لیے قرض لینے کا دعویٰ کرے کہ میں نے اتنا قرض لے کر گھر کی ضروریات میں خرچ کیا ہے جبکہ دوسرے بھائی تسلیم نہ کر رہے ہوں اور وہ کہے کہ ہمیں بتائے بغیر قرض وصول کیا گیا ہے اور اس سے کونسا کام کیا گیا ہے وہ بھی ہمارے علم میں نہیں ہے تو اس قرض کو بھائیوں پر تقسیم کیا جائے گا یا نہیں؟ مذکورہ بالا صورتوں میں اگر ساری میراث اور کمائی تقسیم ہوگی تو بہنیں جو شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہوں اور وہ بھائی جو تعلیم حاصل کر رہے ہوں یا وہ عملی طور پر کسی کاروبار میں شریک نہ ہوں کیا ان کو بھی ترکہ کے ساتھ کمائی میں حصہ دیا جائے گا یا صرف ترکہ دیا جائے گا حالانکہ انہوں نے نہ کوئی کام کیا ہے اور نہ ان کی کوئی کمائی ہے ۔ مشترکہ خاندانی نظام کے مندرجہ بالا صورتوں کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

    جواب نمبر: 168345

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 561-110T/M=01/1441

    (۱) والد صاحب اگر اپنی زندگی میں اپنی ملکیت تقسیم کرنا چاہیں تو جو چیزیں خاص اُن کی ملکیت ہیں ان ہی کو تقسیم کر سکتے ہیں، جو آمدنی یا جائیداد اولاد نے اپنی محنت سے بنائی ہے اور اُسے اپنی ملکیت میں رکھ رکھی ہے وہ اولاد کی ملکیت ہے، والد صاحب اسے جبراً لے کر تقسیم نہیں کر سکتے۔

    (۲) والد صاحب کے انتقال کی صورت میں جو کچھ ترکہ ان کی ملکیت میں ہوگا وہ سب حسب شرع تمام شرعی ورثہ میں تقسیم ہوگا، جن بھائیوں نے اپنی پوری کمائی، مشترکہ اخراجات میں خرچ کردی اور اپنے لئے کوئی جمع پونجی نہیں رکھی یہ ان کا ذاتی عمل ہے، حسن نیت سے خرچ کا ان کو ثواب ملے گا۔

    (۳) والد صاحب کی وفات کے بعد تقسیم ترکہ سے پہلے ذاتی طور پر کسی وارث کا تصرف کرنا درست نہیں، اگر کوئی وارث والد صاحب کے متروکہ کاروبار کو تقسیم سے پہلے آگے بڑھاتا ہے اور اس میں محنت کرکے ترقی دیتا ہے تو منافع کام کرنے والے کو ملیں گے لیکن تمام ورثہ کی اجازت سے ہو تو نفع پاکیزہ ہوگا ورنہ نہیں، یا کوئی وارث اپنا کوئی کاروبار یا ملازمت کرتا ہے تو اس کی آمدنی صرف اسی کی ہوگی اگر اس آمدنی سے کوئی پلاٹ خریدتا ہے یا کوئی کاروبار شروع کرتا ہے تو وہ تنہا اسی کی ملکیت ہوگی۔

    (۴) اگر کسی وارث کا شرعی حق فوت نہ ہو تو اس طرح معاہدے پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔

    (۵) اگر والد صاحب حیات ہیں تو غیر شادی شدہ اولاد کی شادی بیاہ کی ذمہ داری ان ہی پر ہے، ہاں اگر شادی شدہ بھائی بخوشی، غیرشادی شدہ بھائی کی شادی کے اخراجات برداشت کرتے ہیں اور صرفہ آپس میں بخوشی تقسیم کر لیتے ہیں تو ایسا کر سکتے ہیں یہ ان کی طرف سے تبرع ہوگا۔ اگر کوئی بھائی دعوی کرے کہ ہم نے گھریلو اخراجات کے لئے قرض لیا تھا اور دوسرے بھائی تسلیم نہ کریں تو اس مدعی بھائی کے ذمہ بینہ پیش کرنا ہوگا اس کے بغیر قرض کا دعوی ثابت نہ ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند