• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 67781

    عنوان: نوکری میں دوسری کمپنی سے پیسہ لینا

    سوال: (۱) میرے بھائی کانام انوار احمد ہے او ر وہ ایک ایم این سی (ملٹی نیشنل کمپنی )میں کام کرتے ہیں، وہ میکینکل محکمہ میں کام کرتے ہیں او رکمپنی کے لئے مشینوں کی خرید کرتے ہیں۔ میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی مشین کو حریدنے باہر جاتے ہیں اور کسی کمپنی کے ساتھ مشین کی خریداری کا معاملہ مکمل کرلیتے ہیں تو سامنے والی کمپنی میرے بھائی کو کچھ رقم دیتی ہے، کیا یہ رقم لینا جائز ہے؟ حرام تو نہیں؟ (۲) میرے گاوٴں میں کچھ لوگوں نے اپنی کھیتی کی زمین ایک متعین رقم پر پٹے پر دے دیا ہے، کیا ایک متعین رقم پٹے پر دینا جائز ہے؟

    جواب نمبر: 67781

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1038-1063/N=10/1437 (۱) : آپ کا بھائی جب اپنی کمپنی کی جانب سے کمپنی کے لیے مشینوں کی خریداری کرتا ہے تو وہ بحیثیت وکیل وملازم کمپنی کے لیے مشینوں کی خریداری کرتا ہے اور اس کی ساری محنت اور دوڑ دھوپ اپنی کمپنی کے حق میں ہوتی ہے، سامنے والی کمپنی کے حق میں نہیں، اور اس کی کمپنی اسے اس ذمہ داری پر تنخواہ کی شکل میں اجرت دیتی ہے، نیز ( بوجہ وکیل ) یہ عاقد ہوتا ہے اور متعاقدین میں سے کوئی دوسرے سے کمیشن نہیں لے سکتا اگرچہ اس کا عرف ہو، ؛ اس لیے آپ کے بھائی کا سامنے والی کمپنی اپنے لیے الگ سے کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں ؛ لہٰذا وہ سامنے والی کمپنی سے اپنے لیے کوئی معاوضہ نہ لیا کرے ، البتہ سامنے والی کمپنی جس قدر اسے کمیشن دینا چاہتی ہے، وہ اس قدر اپنی کمپنی کے لیے مشینوں کا ریٹ کم کروالیا کرے ، شامی (۷: ۹۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے: قولہ: ” فأجرتہ علی البائع“ : ولیس لہ أخذ شییٴٌ من المشتري؛ لأنہ ھو العاقد حقیقة، شرح الوھبانیة، وظاھرہ أنہ لا یعتبر العرف ھنا؛ لأنہ لا وجہ لہ اھ، شرح وہبانیہ ( ۲: ۷۸ مطبوعہ : الوقف المدني الخیري دیوبند) میں ہے: أن البائع لو باع العین بنفسہ بإذن صاحبھا لیس لہ أن یأخذ شیئاً من المشتري؛ لأنہ ھو العاقد حقیقة، ویجب الأجر علی البائع؛ لأنہ فعل بأمرہ۔ واللہ أعلم اھاورمجمع الضمانات (النوع السابع عشر، ضمان الدلال ومن بمعناہ ص ۵۴ط دار عالم الکتب، بیروت) میں ہے: الدلال لو باع العین بنفسہ بإذن مالکہ لیس لہ أخذ الدلالة من المشتري إذ ھو العاقد حقیقة، وتجب الدلالة علی البائع إذ قبل بأمرالبائع اھ۔ (۲) : جی ہاں! متعین رقم پر کھیتی باڑی کی زمین یا کوئی اور زمین پٹے پر دینا جائز ہے، البتہ پٹہ کی مدت ضرور متعین کرلی جائے جیسا کہ عام طور پر لوگ پٹہ کی مدت متعین کرہی لیتے ہیں، اور اگر زمین کھیتی باڑی ہی کے لیے پٹے پر لی جائے تو یہ بھی واضح کردیا جائے کہ زمین میں کس چیز کی زراعت کی جائے گی یا مطلق طور پر ہر چیز کی زراعت کی اجازت لے لی جائے، وتصح إجارة أرض للزراعة مع بیان ما یزرع فیھا أو قال: علی أن أزرع فیھا ما أشاء کی لا تقع المنازعة، ……۔ وتصح إجارة أرض للبناء والغرس وسائر الانتفاعات کطبخ آجر وخزف ومقیلاً ومراحاً الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الإجارة، باب ما یجوز من الإجارة وما یکون خلافاً فیھا ۹: ۳۹، ۴۰: ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند