• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 600313

    عنوان:

    گاؤں والوں کا خود بینک بنانا

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں۔ ہمارے گاؤں میں کوئی بینک وغیرہ نہیں ہے جس کی وجہ سے پیسے جمع کرنے میں نکالنے میں بڑی پریشانی ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے ہماری گاؤں کی جماعت خود کی بینک بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں،تاکہ ہمارے مسلم بھائی کو غیرمسلم کے بینکوں کو نہ جائیں ۔ اور شریعت کی نظر میں بینک کا مال حرام ہے ؟ اگر ہے حرام ہے تو ۔اسکی کوئی اور صورت جس میں جماعت والوں میں اتفاق باقی رہے ۔

    جواب نمبر: 600313

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:99-54/sn=21442

     مروجہ بینکنگ نظام کا مدار سود پر ہے اور سودی لین دین پر قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں ؛ اس لیے سودی نظام پر مبنی بینک بنانا شرعا جائز نہیں ہے ؛ باقی گاؤں والے اگر کسی اورطرح کا بینک بنانا چاہتے ہیں تو اس کی وضاحت کرنے پر مزید غور کیا جاسکتا ہے ۔

    یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ(278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279) (البقرة: 275 - 279) لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا، ومؤکلہ، وکاتبہ، وشاہدیہ، وقال:ہم سواء․ (صحیح مسلم 3/ 1219) ما حرم أخذہ حرم إعطاؤہ کالربا ومہر البغی وحلوان الکاہن والرشوة وأجرة النائحة والزامر، إلا فی مسائل (الأشباہ والنظائر،القاعدةالرابعة عشرة،ص: 132، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند