• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 602508

    عنوان:

    لاوارث کبوتر پر قبضہ كرنے كا حكم؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائیدین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں ،شریعت کا حکم بتائیں : زید کے گھر کی بالکنی کے باہر کچھ پالتو کبوتروں کے جوڑے نظر آتے تھے جو اکثر ایک کونے میں کھڑے یا بیٹھے رہا کرتے تھے ،۔ ، زید نے انھیں پکڑنا چاہا ، پہلے معلوم کرنا ضروری سمجھا کہ یہ کسی کی ملکیت میں تو نہیں ، اس کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اگر دن کے علاوہ رات بھر بھی ہمیشہ یہ کبوتر اسی طرح لاوارث ایک کونے میں پڑے رہتے ہیں اور کسی کے گھر ، یا ایسی کسی جگہ جہاں کبوتر کو پالنے کے لئے جو جگہ ان کے مالک بناتے ہیں ایسی کسی بھی جگہ یہ کبوتر اگر نہیں جا رہے تو ہو سکتا ہے کہ ۱)وہ لا وارث ہوں ۲) اب وہ اپنے مالک کے گھر ( پتہ معلوم ہونے کے باوجود) نہیں جارہے ہوں ،۔ ، اب جب یہ کبوتر کہیں دن اور رات کسی کے یہاں نہیں جارہے ہیں تو کچھ دنوں تک اس بات کا مشاہدہ کرنے کے بعدزید نے کبوتر کے اس جوڑے کو پکڑ لیا ( اس نیت کے ساتھ کہ اگر واقعی ان کا مالک کوئی نکل آیا تو لوٹا دے گا)ا ، ، 4 مہینوں تک خوب اچھے سے ان کے دانہ پانی وغیرہ کا انتظام کرتا رہا پھر 4 مہینے بعد کسی نے ان کبوتروں کو زید کی بالکنی کے پاس آتے جاتے دیکھا تو پوچھ تاچھ کرتا ہوا زید کے پاس پہونچا زید نے کبوتروں پر دعویٰ کرنے والے کو کبو تر کا جوڑا خوشی سے لوٹا دیا ، ،۔ اب جو باتیں (مسئلہ) معلوم کرنا ہے وہ یہ ہیں کہ : ۱) کبوتر پکڑنے کی جو نوعیت تفصیل سے اوپر بتائی گئی ہے اس میں کوئی پالتو کبوتر اپنے مالک کا گھر معلوم ہونے کے باوجود اپنے ٹھکانے پر جانا چھوڑ دیتا ہے تو اب کوئی دوسرا ان کبوتروں کو پکڑ کر مالک بن جائے گا یا پھر جو کبوتر اپنے مالک کا گھر چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں تو پہلے والا مالک ہی اب بھی ان کا اصل حقدار ( مالک ) ہوگا ، ۲) ۴سے ۶مہینے کی مدت میں کبوتر کو آزاد یا لاوارث سمجھ کر پکڑنے والے کی پرورش میں وہ کبوتر انڈے دیتے ہیں اور پھر ان سے جو بچے نکلے اب کا مالک کون ہوگا ، کیا کبوتر کا صرف جوڑا لوٹانا کافی ہوگا یا اس کے ساتھ ان کے بچے بھی لوٹانے ہوں گے ، جبکہ پہلے والے مالک کو ان کا علم ہی نہیں۔۔ بچوں کے بارے نہ بتانے پر اور نہ ہی ان کو کبوتر کے ساتھ دیا جارہا ہو تو کیا یہ خیانت ہوگی ؟ برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 602508

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:464-373/N=6/1442

     (۱): ایسے کبوتر اپنے اصل مالک ہی کی ملکیت رہتے ہیں، اُس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتے۔

    (۲):صورت مسئولہ میں صرف جوڑا لوٹانا کافی نہ ہوگا؛ بلکہ اُس جوڑے سے جو بچے ہوئے ہیں، وہ بھی لوٹانا ضروری ہوگا اگرچہ مالک کو اُن بچوں کا علم نہ ہو اور اس جوڑے اور بچوں کی پرورش میں دانہ پانی کا جو خرچہ گیا کیا، وہ تبرع شمار ہوگا اور آخرت میں اس کا اجر وثواب ملے گا۔ اور اگر جوڑے اور بچوں کا مالک اپنی مرضی وخوشی سے کچھ معاوضہ ادا کرے تو قبول کرنے میں کچھ حرج نہیں۔

    (مَحْضَنَة) أي: بُرْجُ (حمام اختلط بھا أھلي لغیرہ لا ینبغي لہ أن یأخذہ، وإن أخذہ طلب صاحبہ لیردہ علیہ)؛ لأنہ کاللقطة، (فإن فرخ عندہ، فإن) کانت (الأم غریبة لا یتعرض لفرخھا)؛ لأنہ ملک الغیر، (وإن الأم لصاحب المحضنة والغریب ذکر فالفرخُ لہ)، وإن لم یعلم أن ببرجہ غریباً لا شیء علیہ إن شاء اللّٰہ۔ قلت: وإذا لم یملک الفرخ، فإن فقیراً أکلہ، وإن غنیاً تصدق بہ ثم اشتراہ، ھکذا کان یفعل الإمام الحلواني، ظھیریة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب اللقطة، ۶: ۴۴۴، ۴۴۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ، ۱۳: ۲۱۲، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”اختلط بھا أھلي لغیرہ“: المراد بالأھلي ما کان مملوکاً۔ قولہ: ”لا ینبغي لہ أن یأخذہ“: لأنہ ربما یطیر فیذھب إلی محلہ الأصلي، فلا ینافي ما مر من أن اللقطة یندب أخذھا، أفادہ ط۔ قولہ: ”لأنہ ملک الغیر“: لأن ولد الحیوان یتبع أمہ۔ قولہ: ”وإذا لم یملک الفرخ“: أي: ولم یعلم مالکہ (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند