• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 30259

    عنوان: سوال یہ ہے کہ کیا داڑھی کے بارے میں قرآن کریم میں بھی حکم ہے؟اور حدیث سے کتنی داڑھی ہونا ثابت ہے؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ 40/ قدم سے جو دکھ جائے وہ داڑھی ہے ، کیا یہ صحیح ہے ؟ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

    سوال: سوال یہ ہے کہ کیا داڑھی کے بارے میں قرآن کریم میں بھی حکم ہے؟اور حدیث سے کتنی داڑھی ہونا ثابت ہے؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ 40/ قدم سے جو دکھ جائے وہ داڑھی ہے ، کیا یہ صحیح ہے ؟ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 30259

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 472=303-4/1432 حدیث شریف درحقیقت قرآن کریم کی تفسیر وتوضیح ہے، اس میں داڑھی رکھنے کا حکم آیا ہے، پس حدیث کا حکم قرآن کے حکم کے مثل ہوگا لقولہ تعالیٰ: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیO اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُوْحَی﴾ (نجم) حدیث میں داڑھی بڑھانے کی فضیلتیں آئی ہیں، اس کو انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت قرار دیا گیا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: داڑھی بڑھاوٴ، عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم: واعفوا اللحی (مسلم: ۱/۱۲۹، باب خصال الفطرة) اس لفظ کا تقاضہ یہ ہے کہ داڑھی کی کوئی حد مقرر نہ ہو، مگر راوی حدیث ابن عمر کا معمول یہ تھا کہ وہ ایک مشت سے زائد داڑھی کو کٹاتے تھے۔ عن ابن عمر أنہ کان یقبض علی لحیتہ ثم یقص ماتحت القبضة (کتاب الآثار: ۱۹۸) خود نبی کریم علیہ السلام سے بھی ایام حج میں ایک مشت سے بڑھے ہوئے موئے مبارک کا کاٹنا ثابت ہے، اس لیے جو بال ایک مشت سے زائد ہوں ان کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں، ایک مشت سے کم پہنچنے سے قبل داڑھی کٹانا شرعاً جائز نہیں، اس کو کسی نے بھی جائز نہیں کہا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ۴۰/ قدم سے جو نظر آجائے وہ (شرعی) داڑھی ہے ان کا قول صحیح نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند