UK
سوال # 148762
Published on: Mar 7, 2017
جواب # 148762
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 464-406/Sd=6/1438
جس وقت موبائل اسکرین پر قرآنِ کریم کی آیات واضح طور پر نظر آرہی ہیں، تو اُن کو بلاوضو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے، بظاہر شیشہ حائل نظر آتا ہے؛ لیکن وہ حقیقت میں منفصل نہیں ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں ہمارے نزدیک پہلا قول ہی صحیح ہے۔چند اہم عصری مسائل میں ہے : ” اسکرین پر جس وقت قرآنی آیات نظر آتی ہوں، اُس وقت اس پر ہاتھ نہ لگائیں؛ اس لیے کہ یہاں اگرچہ درمیان میں شیشہ حائل ہے؛ لیکن وہ بظاہر منفصل نہیں ہے“ ( ۲/۱۰۴ )
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اس موضوع سے متعلق دیگر سوالات
اگر ہم ایسی سورة پڑھیں جس میں سجدہ واقع ہو مثال کے طور پر سورة العلق، ہمیں اسے بار بار پڑھنا پڑتا ہے، تو کیا ہمیں ہر بار پڑھنے پر سجدہ کرنا ہوگا؟براہ کرم ، تفصیل سے جواب دیں کہ کن صورتوں میں سجدہ کریں گے اور کن صورتوں میں نہیں کریں گے؟
(1) کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اور علمائے محققین قرآن خوانی کے بارے میں ، کیا یہ درست ہے اگر کسی خاص دن کی تعیین نہ کی جائے، قرآن خوانی میں قرآن پڑھاجاتا ہے، اجتماعی دعا کی جاتی ہے اور کھانا بھی پیش کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ (2) کیا ہم مرحومین کے لیے قربانی کرسکتے ہیں؟ اس سلسلے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ (3) اگر بھیڑ کی دُم بیماری کی وجہ سے کٹ جائے تو کیا اس کی قربانی جائز ہوگی؟
ہم اپنے شہر میں مظاہرہٴ قرأت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا از روئے شریعت اس کی اجازت ہے؟ واضح رہے کہ یہ قرآن مقابلہ کا پروگرام نہیں ہے۔
اگر آڈیو یا ویڈیو سے سجدہ کی آیت سنی جائے تو کیا سجدہ کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ کیا آڈیو یا ویڈیو کے احکام میں کچھ اختلاف ہے؟
سورة الانبیاء آیت نمبر ۳۰ و سورة فصلت آیت نمبر ۱۱ کی تشریح ڈاکٹر ذاکر نائک اس طرح کرتے ہیں: علمائے فلکیات کی تشریح کے مطابق کائنات کی تخلیق ?بڑے دھماکے? (Big Bang ) سے ہوئی ہے۔اس وقت یہ خیال مقبول عام ہے اور کئی دہائیوں سے ماہرین فلکیات اور سائنس دانوں کے مشاہداتی و توضیحاتی جمع کردہ مواد سے اس نظریہ کی توثیق و تائیدکی جارہی ہے۔ ?بڑے دھماکے? کے اس نظریہ کے مطابق پوری کائنات ابتدا میں ایک بڑا جامد مجموعہ تھی۔ پھر اس میں دھماکہ ہوا جس کی بنیاد پر کہکشاؤں کا وجود عمل میں آیا۔پھر ان سے ستاروں، سیاروں ، سورج، چاند وغیر ہ کا وجود ہوا۔ کائنات کی ابتدا بے مثال تھی اور ایسا اتفاقاً ہوجانا بھی درجہٴ صفر میں ہے۔ قرآن میں ابتدائے کائنات کے متعلق یہ آیت موجود ہے:سورة الانبیاء آیت نمبر ۳۰۔ بڑے دھماکے اور قرآنی آیت کے درمیان اتفاق نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک کتاب جو صحرائے عرب میں چودہ سو سال قبل اتاری گئی اس میں یہ آج کی یہ سائنسی حقیقت موجود تھی۔۔۔۔۔
ناسخ و منسوخ کے متعلق میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ قرآن میں کوئی آیت موجود ہو لیکن اس کا حکم منسوخ ہوچکا ہو۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ کچھ آیتیں ایسی ہیں جو قرآن میں موجود نہیں(ان کی قرأت منسوخ ہے) لیکن ان کا حکم اب بھی قائم ہے۔ مثلاً آیت رجم، یہ قرآن میں موجود نہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہم اس آیت کو پڑھا کرتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ اس آیت کو پڑھا کرتے تھے تو کس نے اس آیت کو قرآن سے نکالنے کا حکم دیا؟یا تو ان احادیث کا انکار کرنا پڑے گا جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کچھ آیتوں کو پڑھتے تھے اور اب وہ آیتیں قرآن میں نہیں، یا (نعوذ باللہ، نعوذ باللہ ) یہ قبول کرنا ہوگا کہ صحابہ جو قرآن پڑھتے تھے وہ آج کے قرآن سے مختلف تھا۔ از راہ کرم، ناسخ و منسوخ کے سلسلے میں وضاحت فرمائیں۔ قرآن میں کوئی آیت ہوسکتی ہے لیکن اس کا حکم منسوخ ہوسکتا ہے ، اور قرآن سے کوئی آیت غائب ہوسکتی ہے لیکن بلا کسی منطقی دلیل کے اس کا حکم موجود ہوسکتا ہے۔ جب اس کا حکم اب بھی قائم ہے تو اس آیت کو قرآن سے کیوں نکالا گیا؟
کیا ہند ی میں جو قرآن لکھا ہوتاہے اسے پڑھ سکتے ہیں؟