• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 68151

    عنوان: میرا سوال طلاق البدعت سے متعلق ہے، یہ کب واقع ہوتی ہے اور کیوں یہ صرف حنفی سنی پر لاگو ہوتا ہے اور دوسرے فرقہ والوں پر کیوں نہیں لاگو ہوتا ہے؟

    سوال: میرا سوال طلاق البدعت سے متعلق ہے، یہ کب واقع ہوتی ہے اور کیوں یہ صرف حنفی سنی پر لاگو ہوتا ہے اور دوسرے فرقہ والوں پر کیوں نہیں لاگو ہوتا ہے؟

    جواب نمبر: 68151

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 850-824/SN=9/1437 اگر کسی کو شرعی بنیاد پر طلاق دینے کی ضرورت ہو تو وہ طلاق دے سکتا ہے، اس کے لیے گناہ نہیں ہے؛ لیکن اسے چاہئے کہ مندرجہ ذیل دو طریقوں میں سے کسی ایک کے مطابق طلاق دے۔ (۱) بیوی جب حالتِ طہر میں ہو او ر اس طہر میں اس کے ساتھ ہمبستری نہ کی گئی ہو، اس وقت ایک طلاق رجعی دے کر بیوی کو چھوڑ دے، وہ عدت گزار کر خود بہ خود بائنہ ہوجائے گی، یہ طریقہ سب سے بہتر ہے۔ (۲) تین مختلف طہروں میں تین مختلف طلاقیں دے۔ طلاق کے صرف یہ دو طریقے شرعا جائز او رمباح ہیں، ان دونوں کے علاوہ طلاق کی کوئی اور صورت اپنانا (مثلا: تین یا دو طلاق ایک ساتھ دینا، حالتِ حیض میں طلاق دینا وغیرہ) شرعا جائز نہیں ہے؛ بلکہ دیگر تمام طریقے بدعت ہیں۔ البدعي: ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتین في طہر واحد ․․․․ لو قال: البدعي ما خالفہما لکان أو جز وأفود (در مختار مع الشامی، ۴/۴۳۴، ط: زکریا) اسی میں ایک دوسری جگہ ہے: والبدعة منسوب إلی البدعة، والمراد ہہنا المحرمة لتصریحہم بعصیانہ (حوالہٴ سابقہ) نیز دیکھیں: ہدایہ (۲/۳۵۴، کتاب الطلاق، ط: تھانوی) اگر چہ شرعا ”طلاقِ بدعت“ کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں جیسا کہ اوپر گزرا؛ لیکن عرفاً تین طلاق ایک ساتھ دینے کو ہی ”طلاقِ بدعت“ کہا جاتا ہے، غالبا آپ کی مراد بھی یہی ہے، ”طلاقِ بدعت“ کا حکم یہ ہے کہ اس طرح طلاق دینا ناجائز اور گناہ ہے؛ لیکن اگر کوئی دے دیتا ہے (کسی بھی حال میں دے) تو طلاق بہرحال واقع ہو جاتی ہے، یہ حکم صرف امام ابوحنیفہ کے نزدیک نہیں؛ بلکہ باقی دیگر ائمہ: امام شافعی  اور امام احمد وغیرہ کے نزدیک بھی ”طلاقِ بدعت “ واقع ہو جاتی ہے؛ بلکہ جمہور امت کا یہ مسلک ہے، آپ کو جو بات پہنچی کہ یہ صرف حنفی لوگوں کے نزدیک ہے، دیگر کے نزدیک نہیں، صحیح نہیں ہے، پوری جمہورِ امت کے بر خلاف صرف غیرمقلدین تین طلاق کے ایک ہونے کی بات کہتے ہیں، یہ جمہور کے بالمقابل انتہائی مرجوح او رناقابلِ التفات قول ہے، اس پر عمل کرنا قطعا جائز نہیں۔ قال اللہ تعالی: فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ (سورہٴ بقرہ، آیت: ۳۲۰) وفي سنن الدار قطني: أیما رجل طلق امرأتة ثلاثاً ․․․․․ لَمْ تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ (سنن الدار قطني، رقم: ۳۱۴، کتاب الطلاق) وقال في عمدة القاري: مذہب جماہیر العلماء من التابعین، ومن بعدہم، منہم الأوزاعي، والنخعي، والثوريّ، وأبوحنیفة وأصحابہ ، والشافعيّ وأصحابہ وأحمد وأصحابہ ، ․․․․․․ علی أن من طلق امرأتہ ثلاثاً وقعن ولکنہ یأثم (عمدة القاري: ۲/۲۳۳، باب من أجاز الطلاق الثلاث ، بیروت) وفي أحکام القرآن للجصاس: فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معًا وإن کانت معصیة․ (أحکام القرآن للجصاص: ۱/۳۸۸، ذکر الحجج لإیقاع الثلاث معًا اور فتاوی عالمگیری میں ہے: وإن کان الطلاق ثلاثا في الحرة ․․․․ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بہا ثم یطلقہا أو یموت عنہا (الفتاوی الہندیة: ۱/۴۷۳، ط: مکتبہ زکریا، دیوبند) مزید تفصیل کے لیے دیکھیں ”عمدة الأثاث فی الطلقات الثلاث“ از حضرت مولانا سرفراز خاں صاحب صفدر ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند