• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 147909

    عنوان: باپ سے رابطہ ركھنے پر مطلقہ ماں كو تكلیف ہونا؟

    سوال: میرے والد نے والدہ کو تین مرتبہ طلاق کہا ، والد ہ کے مطابق والد صاحب 2001 سے شراب پیتے تھے، اس وقت میں تیسری کلاس میں تھا، اس لیے میں ان کی باتوں کو نہیں سمجھتا تھا، مگر جو مجھے یاد ہے وہ یہ کہ میرے والدکی فیملی کی طرف سے غلط علاج ہوتا تھا، وہ سب جادو جانتے تھے، والدہ کا ماننا ہے کہ میری دادی میرے والد پر جادو کا استعمال کرتی تھیں، اس وقت میری بہن ساتویں کلاس میں تھی، تب سے میں اور میری بہن والدہ کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، کیو ں کہ والد صاحب نے کہیں دوسری شادی کرلی تھی اور وہ لوگ اس گھر میں رہتے تھے جس میں والدہ نے اپنی تنخواہ کے پیسے لگائے ہیں ،ایسا اس لیے تھا کہ میری والدہ سے شادی کرنے کے وقت والد صاحب کی کوئی سرکاری نوکر ی نہیں تھی اور والدہ کی نوکری تھی، ہمارے لیے والدہ نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں، ہماری وجہ سے انہوں نے دوسری شادی کے لیے سوچا بھی نہیں، اس وقت میری عمر ۲۳ سال ہے، والدہ کی مزید قربانی یہ ہے کہ وہ اس عمر میں آفس کے کوارٹر میں تنہا رہتی ہیں اور میں ہوسٹل میں رہتاہوں، والدہ کی باتوں سے مجھے محسوس ہوتاہے کہ وہ اب بھی ان کو پسند نہیں کریں گی اور جب ان کو یہ معلوم ہوگا کہ میں ان کے رابطے میں ہوں تو ان کو بہت زیادہ تکلیف ہوگی، شریعت مجھے کیا حکم دیتی ہے؟اگر میں ان سے رابطہ نہ رکھوں تو کیا مجھے سزا ہوگی قطع رحمی کرنے پر؟والد اور ان کی فیملی کے بارے میں میرے دل میں کیا خیال ہونا چاہئے؟ایسی صورت حال میں مجھ پر میرے والد اور ان کی فیملی کے کیا حقوق ہونے چاہئے؟ان سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے، میرے والد نے سات آٹھ سال سے مجھے نہیں دیکھا ہے، کیوں کہ اکثر وقت میں ہوسٹل میں رہتاہوں اور چھٹیوں میں میں گھر پہ ہوتاہوں جو والد کے گھر سے 11/15کلومیٹر دو رہے۔تب سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے۔

    جواب نمبر: 147909

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 433-415/Sn=5/1438

    جس طرح ماں کا رشتہ دائمی ہوتا ہے، اسی طرح باپ کا رشتہ بھی، شریعت نے دونوں کے احترام اور دونوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا، اولاد کے لیے یہ جائز نہیں کہ والدین میں سے کسی ایک کی رعایت میں دوسرے کا حق تلف کرے؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں آپ والدہ کے حقوق کی ادائیگی وان کے احترام کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے ساتھ بھی رابطہ رکھیں، ان کی بھی حال خیریت لیتے رہیں، اگر وہ بوڑھے ہوگئے ہیں اور انھیں آپ کی خدمت کی ضرورت ہے تو ان کی خدمت بھی کریں، اپنی والدہ کو یہ بات خوش اسلوبی کے ساتھ سمجھادیں، باقی اگر آئندہ بھی آپ والدہ کے ساتھ ہی رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، آپ رہ سکتے ہیں؛ البتہ والد صاحب سے رابطہ بالکلیہ نہ توڑیں اور نہ ہی ان کی خدمت چھوڑیں۔ ایک حدیث میں ہے: ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، بچے پر والدین کے کیا حقوق ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماں اور باپ تمھاری جنت ہیں یا تمھاری جہنم یعنی اگر تم ان دونوں کو خوش رکھوگے تو تمھارے لیے جنت اگر نافرمانی اور قطع رحمی کرکے انھیں ناراض رکھوگے تو تمھارے لیے دوزخ ہے۔ وعن أبي أمامة -رضي اللہ عنہ- أن رجلاً قال: یا رسول اللہ! ما حق الوالدین علی ولدہما؟ قال: ہما جنتک ونارک (ابن ماجہ، رقم: ۲۶۶۲، باب بر الوالدین)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند