• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 10795

    عنوان:

    میں کمپیوٹر سائنس گریجویٹ ہوں اور اپنے ملک میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے میں نے اپنی پوری زندگی بہت سخت محنت کی، کیوں کہ میں ایک معذور شخص ہوں۔ میرا بایاں بازو مصنوعی ہے لیکن الحمد للہ میں اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنی معذوریت پر حاوی رہا ہوں اور اب میں بہت ہی اچھی حالت میں ہوں۔اور میں اپنا سپورٹ کرنے کے لیے اور اپنے گھر والوں کا سپورٹ کرنے کی حالت میں ہوں۔ معذور ہونے کے بعد میں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ پڑھائی کی عام انداز میں اور عام انسانوں کی طرح نوکری بھی کررہا ہوں۔ اس لیے اپنے ذاتی تجزیہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں نکاح کرسکتاہوں جس کو ایمان کا ایک حصہ کہا گیا ہے نیز میرے والدین بھی اب انتیس سال کی عمر میں شادی کرنے کے لیے میرے اوپر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ مزید اطلاع کے لیے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ میں اپنے مذہب اور الحمد للہ تمام سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے سوال یہ ہیں کہ میں ایک عورت کو جانتا ہوں جو کہ میرے گھرانے سے نہیں ہے لیکن میرے بڑے بھائی کی بیوی کی رشتہ دار ہے جس کے شوہر ...

    سوال:

    میں کمپیوٹر سائنس گریجویٹ ہوں اور اپنے ملک میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے میں نے اپنی پوری زندگی بہت سخت محنت کی، کیوں کہ میں ایک معذور شخص ہوں۔ میرا بایاں بازو مصنوعی ہے لیکن الحمد للہ میں اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنی معذوریت پر حاوی رہا ہوں اور اب میں بہت ہی اچھی حالت میں ہوں۔اور میں اپنا سپورٹ کرنے کے لیے اور اپنے گھر والوں کا سپورٹ کرنے کی حالت میں ہوں۔ معذور ہونے کے بعد میں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ پڑھائی کی عام انداز میں اور عام انسانوں کی طرح نوکری بھی کررہا ہوں۔ اس لیے اپنے ذاتی تجزیہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں نکاح کرسکتاہوں جس کو ایمان کا ایک حصہ کہا گیا ہے نیز میرے والدین بھی اب انتیس سال کی عمر میں شادی کرنے کے لیے میرے اوپر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ مزید اطلاع کے لیے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ میں اپنے مذہب اور الحمد للہ تمام سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے سوال یہ ہیں کہ میں ایک عورت کو جانتا ہوں جو کہ میرے گھرانے سے نہیں ہے لیکن میرے بڑے بھائی کی بیوی کی رشتہ دار ہے جس کے شوہر کا پاکستان میں جہاز کے حادثہ میں انتقال ہوگیا ہے ۔ یہ بیوہ عورت دو بچوں کی ماں ہے نیز اپنے شوہر کے ذہنی طور پر معذور بہن کی بھی دیکھ بھال کرتی ہے میں اس عورت سے شاد ی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کیوں کہ میں نے اس کے متوفی شوہر سے ایک مرتبہ ملاقات کی تھی اس کی زندگی میں اور اس کے شوہر کی اسلامی کردار اور شخصیات کی وجہ سے میں اس کی بیوی اور اس کے بچوں کا تعاون کرنا چاہتاہوں اسلامی انداز میں۔ میری تمام خواہشات اور امیدیں میرے مذہب کی حد میں ہیں لیکن میری معذوریت میرے مضبوط جذبات میں آڑ ہے مجھے اپنی زندگی میں یہ اہم فیصلہ لینا ہے تاکہ جس پر میں عمل کرنا چاہتاہوں وہ اللہ کی مرضی کے مطابق ہوجائے ۔ میرے چند سوال ہیں۔ (۱)کیا میرے لیے اس عورت سے ملنا ولی کی موجودگی میں جائز ہے اس سے یہ کہنے کے لیے کہ میں اس کی بقیہ زندگی اس کی سماجی ذمہ داریاں پوری کرنے میں تیار ہوں ۔ اس عورت سے ملنے کا اسلامی طریقہ کیا ہے کیا اس عورت کے ولی کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے اس سے ملنے کے لیے؟ اللہ تبارک و تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس بارے میں کیا ہیں؟ (۲)کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اگر اس کے ولی اس تجویز کو نامنظور کرتے ہیں بغیر میرے اندرونی جذبات کو سنے ہوئے اور اسباب یعنی کہ میں نے شادی کی یہ تجویز کیوں پسند کی ہے (یاد رہے کہ میں معذور ہوں اور میں اور میرے والدین اس کو پہلی ملاقات میں ظاہر کردیں گے ہم کوئی چیزنہیں چھپائیں گے ان سے یہ ان کے فیصلہ کی ایک وجہ ہوسکتی ہے)۔(۳)کیا میرا مذہبی حق نہیں ہے اس عورت سے ملنا اور اس سے اپنی نیت کے بارے میں کہنا؟ اسلام اس کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ میرے لیے اس عورت کواس بات کا یقین دلانا کہ میں اپنے آپ کو محبت کرنے والا اور دیکھ بھال کرنے والا شریک حیات ثابت کروں گا اور اس کے بچوں کے لیے ذمہ دار والدثابت ہوں گا یہ کیسے ممکن ہے؟ (۴)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشورہ ان لوگوں کے لیے جن کہ کبھی شادی نہیں ہوئی ہے یہ ہے کہ وہ کسی ایسے سے شادی کریں جس کی کبھی شادی نہیں ہوئی ہے اوپر مذکور حقیقت کو پڑھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی نافرمانی نہیں کررہا ہوں کیوں کہ اسلام کی یہ بھی تعلیمات ہیں کہ یتیموں اور بیواؤں کا تعاون کرنا ۔اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ (۵)میں نے اب تک اس عور ت کے پاس تجویز نہیں بھیجی ہے اور اس کو جلد ہی ان شاء اللہ بھیجنے کی کوشش کررہا ہوں۔ آپ مجھے اسلام کا مکمل نظام حیات پر چلنے کے لیے کیا قیمتی مشورہ دیتے ہیں؟ میں استخارہ کرتا ہوں تو مجھے کیا کرنا ہوگا جب میرے ذہن میں ملے جلے خیالات آئیں اس کے مکمل ہونے کے بعد یعنی آیا اس تجویز کو بھیجوں یا نہ؟ نیز میرے لیے دعا کریں اور اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔والسلام

    جواب نمبر: 10795

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 299=19/د

     

    آپ کے جذبات واحساسات مستحسن ہیں مشورہ میں خیر وبرکت ہوتی ہے لہٰذا اولاً آپ اپنے گھروالوں مثلاً والدین وغیرہ سے مشورہ کرلیں، اور انھیں اپنے جذبات واحساسات سے باخبر کریں بعدہ لڑکی کے ولی کے توسط سے اپنی بات لڑکی تک پہنچائیں، ولی کی موجودگی میں پردے کی آڑ سے لڑکی سے بھی بات چیت کرلینے کی گنجائش ہے، اور اگر لڑکی کے ولی آپ کی بات سے متفق نہ ہوں تو آپ اپنے گھر کی عورتوں کے توسط سے یا لڑکی کے اہل خانہ کے توسط سے اپنی بات براہ راست لڑکی تک بھی پہنچاسکتے ہیں۔

    (۳) مذہبی حق شرعی حدود میں ہی ہوتا ہے جس کی وضاحت اوپر کردی گئی، براہ راست ملنے میں خواہ آپ کتنے ہی نیک نیت ہوں شکوک وشبہات بھی پیدا ہوسکتے ہیں، لہٰذا بلا حجاب اور تنہا ملنے کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔

    (۴) کنواری لڑکی سے شادی کرنے کی ترغیب حدیث میں وارد ہے، لیکن بعض موقعہ پر خاص حالات میں بیوہ لڑکی سے نکاح کرنا فضیلت کا باعث ہوجاتا ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بیوہ عورتوں سے نکاح فرمایا ہے۔

    (۵) استخارہ کا مسنون طریقہ بہشتی زیور میں ہے یا بعض دوسری دعاوٴں کی کتابوں میں لکھا رہتا ہے، بعد عشاء سونے سے قبل دو رکعت نماز تازہ وضو کرکے پڑھیں بعد نماز دعائے استخارہ پڑھ کر سوجائیں جو بات بہتر ہوگی اللہ تعالیٰ آپ کا قلب اس طرح مائل کردیں گے، اگر ایک روز کے استخارہ سے قلب یکسو نہ ہو تو ۳/ روز یا سات روز تک استخارہ کرلیں۔ حاصل یہ کہ استخارہ اور مشورہ کرنے کے بعد ہی قدم اٹھانا بہتر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند