• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 16125

    عنوان:

    زکوة کے تعلق سے میرے چند سوالہیں۔ (۱)ہم چند سالوں تک امریکہ میں تھے لیکن اب ہم انڈیا واپس آچکے ہیں۔ہمارے پاس کچھ رقم محفوظ ہے جو کہ ہم نے وہاں کمایا تھا۔ اب ہماری آمدنی زیادہ نہیں ہے لیکن اب بھی ہم اپنی بچت پرزکوة ادا کررہے ہیں جو کہ ہم نے اپنے بچوں کے لیے رکھا ہے۔ اب ہم صرف اس بچت سے زکوة ادا کررہے ہیں۔ ایک طرح سے ہم زکوة ادا کرنے میں اپنی بچت کو خرچ کررہے ہیں، کچھ وقت کے بعد ہماری بچت ختم ہوجائے گی کیوں کہ اب ہم زیادہ نہیں کماتے ہیں۔ تو اس صورت میں ہم کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہم اپنی تمام بچت پر زکوة ادا کرنا جاری رکھیں یہاں تک کہ سب ختم ہوجائے یا کچھ ہم کو اپنے بچوں کے لیے رکھنا چاہیے؟ (۲)جب ہم امریکہ میں تھے تو ہم نے کچھ زمین اور چھوٹے فلیٹ خریدے ، یہ بھی ہمارے بچوں کے لیے ہیں کیوں کہ وہ ابھی بہت چھوٹے ہیں اس لیے ہم ان کو ان کی تعلیم کے لیے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھ کو اس زمین اور فلیٹ پر زکوة ادا کرنی ہوگی ، یہ میرے بچوں کے لیے ایک طرح کی بچت ہے؟ اس لیے میرا منصوبہ یہ ہے کہ جب کبھی مجھ کو اس زمین ....

    سوال:

    زکوة کے تعلق سے میرے چند سوالہیں۔ (۱)ہم چند سالوں تک امریکہ میں تھے لیکن اب ہم انڈیا واپس آچکے ہیں۔ہمارے پاس کچھ رقم محفوظ ہے جو کہ ہم نے وہاں کمایا تھا۔ اب ہماری آمدنی زیادہ نہیں ہے لیکن اب بھی ہم اپنی بچت پرزکوة ادا کررہے ہیں جو کہ ہم نے اپنے بچوں کے لیے رکھا ہے۔ اب ہم صرف اس بچت سے زکوة ادا کررہے ہیں۔ ایک طرح سے ہم زکوة ادا کرنے میں اپنی بچت کو خرچ کررہے ہیں، کچھ وقت کے بعد ہماری بچت ختم ہوجائے گی کیوں کہ اب ہم زیادہ نہیں کماتے ہیں۔ تو اس صورت میں ہم کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہم اپنی تمام بچت پر زکوة ادا کرنا جاری رکھیں یہاں تک کہ سب ختم ہوجائے یا کچھ ہم کو اپنے بچوں کے لیے رکھنا چاہیے؟ (۲)جب ہم امریکہ میں تھے تو ہم نے کچھ زمین اور چھوٹے فلیٹ خریدے ، یہ بھی ہمارے بچوں کے لیے ہیں کیوں کہ وہ ابھی بہت چھوٹے ہیں اس لیے ہم ان کو ان کی تعلیم کے لیے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھ کو اس زمین اور فلیٹ پر زکوة ادا کرنی ہوگی ، یہ میرے بچوں کے لیے ایک طرح کی بچت ہے؟ اس لیے میرا منصوبہ یہ ہے کہ جب کبھی مجھ کو اس زمین اور فلیٹ کی اچھی قیمت ملے گی تو میں ان کو فروخت کردوں گا اور کچھ اور خرید نا جاری رکھوں گا اور وہ صرف میرے بچوں کے مستقبل کے لیے ہوگا۔اس صورت میں مجھ کو کیا کرنا چاہیے، کیا مجھ کو اس زمین اور فلیٹ پر زکوة ادا کرنے کی ضرورت ہے؟میرے شوہر کی بہن کے پانچ بچے ہیں اس کے شوہر کی آمدنی زیادہ نہیں ہے، لیکن وہ لوگ مشترکہ فیملی میں رہتے ہیں، اس لیے ان کی ضرورت گھر کے دوسرے افراد کے ذریعہ سے پوری ہوجاتی ہے، اس صورت میں کیا ہم ان کو زکوة دے سکتے ہیں؟(وہ زکوة لینے کے مستحق ہیں یا نہیں)؟یہی بہن اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ مشترکہ فیملی سے علیحدہ ہونا چاہتی ہے (ابھی تک وہ مشترکہ فیملی میں ہے)تو کیا ہم ان کو زکوة کا پیسہ دے سکتے ہیں ان کو نئی زندگی شروع کرنے میں مدد کرنے کے لیے (برتن او رگھریلو اشیاء کو خریدنے کے لیے اور اگر ان کا شوہر نیا کاروبار شروع کرنا چاہتاہے)؟ہمارا شبہمیں تھے کہ کیا ہم ان کو زکوة ادا کرسکتے ہیں جب کہ وہ اب بھی مشترکہ فیملی میں رہتے ہیں اور نکلنے کا ارادہ کررہے ہیں؟ یا اب ہم ان کو کچھ رقم بطور قرض کے دے دیں (جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ اس کو مستقبل قریب میں ادا نہیں کرپائے گی)۔ ایک مرتبہ جب وہ اپنی مشترکہ فیملی سے علیحدہ ہوگی تو وہ زکوة لینے کی اہل ہوجائے گی ۔کیا اس صورت میں قرض کو زکوة بول کر معاف کیا جاسکتا ہے؟ والسلام

    جواب نمبر: 16125

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د):1799=270k-10/1430

     

    (۱) جی ہاں جب تک آپ کی بچت کی رقم نصاب کے بقدر رہے گی، اس پر زکات کی ادائیگی کرنی ہوگی، اس لیے رقم کو کسی منفعت بخش کاروبار وغیرہ میں لگادینا چاہیے تاکہ زکات اسے کھانہ جائے۔

    (۲) جو زمین یا فلیٹ اپنے رہائش کی غرض سے خریدا ہے یا مال محفوظ کرنے کے لیے خریدا ہے، ان پر زکات واجب نہیں، البتہ اگر آپ نے کاروباری مقصد سے خریدا ہے کہ اسے فروخت کرکے منفعت حاصل کریں گے تو ان کی موجودہ مالیت پر زکات واجب ہوگی۔

    (ب) شوہر کی بہن یا ان کے بچے اگر غریب مستحق زکات ہیں تو آپ انھیں اپنی زکات کی رقم دے سکتی ہیں، جسے ان کے حوالہ کرکے مالک بنادیں پھر وہ جو چاہیں کریں، یعنی اپنے ذاتی اخراجات پورے کریں یا مشترک فیملی نظام میں ادا کریں۔

    (ج) اگر دیتے وقت قرض کی نیت سے دیا ہے تو بعد میں زکات بول کر معاف کرنے سے زکات ادا نہ ہوگی۔ البتہ وہ وہ مستحق زکات یعنی غریب ہیں ان کے پاس نصاب کے بقدر سونا / چاندی/ یا نقد روپئے نہیں ہیں جن کی قیمت 52.5 تولہ چاندی کے برابر ہوتی ہو اور آپ انھیں زکات دینا چاہیں تو دیتے وقت زکات کہہ کر دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ صرف اپنے دل میں نیت کرلینا کافی ہے، انھیں خواہ ہدیہ یا تحفہ کے نام سے دیدیں تو بھی زکات ادا ہوجائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند