• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 46903

    عنوان: کیا فنڈ كے تمام ممبران کی طرف سے زکاة نکال سکتے ہیں؟

    سوال: ہمارا ایک فنڈ ہے جس میں ممبران کی تعداد تیس ہے اس میں تمام ممبران نے مساوی رقم جمع کرائی ہوئی ہے ، فنڈ میں ایک مخصوص رقم500000 لاکھ روپئے قسطوں کے کاروبار میں لگائی ہوئی ہے اور اس رقم سے مختلف اشیاء خرید کر قسطوں پر فروخت کرتی ہے ، مذکورہ بالا رقم ہر وقت گردش میں رہتی ہے ، یعنی کہ جو رقم ماہانہ قسطوں کی مد میں حاصل ہوتی ہے اس سے دوبارہ سامان تجارت خرید کر فروخت کر دیاجاتاہے اور جو منافع حاصل ہوتاہے اس کو بھی کاروبار میں لگا دیا جاتاہے اب اس کاروبار کی مجموعی مالیتRs.530000 ہو چکی ہے ، اب اس کی زکاة نکالنے کی کیا صورت ہوگی ؟ (۱) کیا لگاگئی Rs.530000 کی زکاة نکالنی ہوگی؟ (۲) یا اس کے حاصل شدہ منافعRs.30000 کی زکاة نکالنی ہوگی؟ (۳) کیا فنڈ تمام ممبران کی طرف سے زکاة نکال سکتے ہیں؟ (۴) یا اگر نہیں نکالتا اور صرف ممبران کو ان کی زکاة سے متعلق رقم سے آگاہ کردیاجاتاہے تو کیا اس صورت میں فنڈ کے ذمہ داران اس سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں یا نہیں؟

    جواب نمبر: 46903

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1613-433/H=12/1434-U (۱-۲) زکاة کا مالِ تجارت کی اصل اور نفع دونوں پر واجب ہوتی ہے، پس اگر ہرایک ممبر کی اصل رقم اور اس کا نفع دونوں کا مجموعہ اس کے پاس موجود کرنسی وغیرہ کے ساتھ مل کر یا اس کے بغیر بھی نصاب کو پہنچ جاتا ہے تو ہرایک ممبر پر اپنے حصہ کے بقدر زکاة واجب ہوگی۔ ہندیہ میں ہے: ”فإن کان نصیب کلّ واحدٍ منہما یبلغ نصابًا وجب الزکاة وإلا فلا سواء کانت شرکتہما عنانًا أومفاوضة أو شرکة ملک بالإرث أو غیرہ من أسباب الملک“ (ہندیہ: ۱/۱۸۱ الباب الثالث) (۳) اگر ممبران فنڈ کے ذمہ داران کو وکیل بنادیں تو وہ زکاة نکال سکتے ہیں، فقہ کی یہ عبارت اس پر دال ہے: ”وإذا وکّل في أداء الزکاة أجزأتہ النیة عند الدفع إلی الوکیل“ (ہندیہ: ۱/۱۷۱، مطبوعہ دارالکتاب دیوبند) (۴) زکاة ادا کرنے کی ذمہ داری مالکان پر ہے، ذمہ داران فنڈ کا مقدارِ رقم سے آگاہ کردینا کافی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند