عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 46903
جواب نمبر: 46903
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1613-433/H=12/1434-U (۱-۲) زکاة کا مالِ تجارت کی اصل اور نفع دونوں پر واجب ہوتی ہے، پس اگر ہرایک ممبر کی اصل رقم اور اس کا نفع دونوں کا مجموعہ اس کے پاس موجود کرنسی وغیرہ کے ساتھ مل کر یا اس کے بغیر بھی نصاب کو پہنچ جاتا ہے تو ہرایک ممبر پر اپنے حصہ کے بقدر زکاة واجب ہوگی۔ ہندیہ میں ہے: ”فإن کان نصیب کلّ واحدٍ منہما یبلغ نصابًا وجب الزکاة وإلا فلا سواء کانت شرکتہما عنانًا أومفاوضة أو شرکة ملک بالإرث أو غیرہ من أسباب الملک“ (ہندیہ: ۱/۱۸۱ الباب الثالث) (۳) اگر ممبران فنڈ کے ذمہ داران کو وکیل بنادیں تو وہ زکاة نکال سکتے ہیں، فقہ کی یہ عبارت اس پر دال ہے: ”وإذا وکّل في أداء الزکاة أجزأتہ النیة عند الدفع إلی الوکیل“ (ہندیہ: ۱/۱۷۱، مطبوعہ دارالکتاب دیوبند) (۴) زکاة ادا کرنے کی ذمہ داری مالکان پر ہے، ذمہ داران فنڈ کا مقدارِ رقم سے آگاہ کردینا کافی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند