• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 59622

    عنوان: ویری كوز بیماری كی وجہ سے نسبندكی كی اجازت ہوسكتی ہے كیا؟

    سوال: میں ۲۵ سالہ عورت ہوں، شادی کو پانچ سال ہوگئے، میرے تین بچے ہیں، میں جب بھی حاملہ ہوتی ہوں تو میرے پیر کی ایک رگ (نس) انگوٹھے سے رحم تک پھول جاتی ہے، جس میں جان لیوا درد ہوتاہے۔ ڈاکٹر سے بیماری کے متعلق پوچھا تو بتایا کہ یہ ویری کاز (very cause) کی بیماری ہے، جب بھی آپ کو حمل ٹھہرتاہے تو آپ یہ بیماری لاحق ہوتی ہے اور آگے چل کر آپ کے پیر شیل ہونے کا بھی خطرہ ہے، آپ نس بندی کا آپریشن کرالیں تو اس خطرے سے باہر اسکتی ہیں، ورنہ آپ کا پیر چلنے کے قابل نہیں رہے گا، تو کیا مجھے اس خطرے سے بچنے کے لیے اولاد نہ ہو نے کا آپریشن کرالینا جائز ہوگا؟براہ کرم، جواب دیں، مہربانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 59622

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 803-792/N=9/1436-U اولاد نہ ہونے کا آپریشن کرانا جس سے ہمیشہ کے لیے مستقل طور پر استقرار حمل اور بچہ جننے کی صلاحیت ختم ہوجائے، شریعت اسلام میں سخت حرام و ناجائز ہے؛ کیوں کہ یہ تغیر لخلق اللہ کی قبیل سے ہے، اور صورت مسئولہ میں آپ کو حالت حمل میں جو ویری کاز کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور اس میں پیر کی رگ میں سخت ترین درد ہوتا ہے اور آگے پیر کے شل ہوجانے کا بھی خطرہ ہے تو اس سے بچنے کا صرف یہی حل نہیں ہے کہ اولاد نہ ہونے کا آپریشن کرالیا جائے؛ بلکہ منع حمل کی عارضی تدبیریں اپناکر بھی اس بیماری اور خطرہ سے بچاجاسکتا ہے؛ اس لیے آپ اولاد نہ ہونے کا آپریشن ہرگز نہ کرائیں؛ بلکہ منع حمل کی عارضی تدبیریں اختیار کریں، مثلاً: ملٹی لوڈ لگوانا یا آپ کے شوہر بوقت جماع عمدہ کوالٹی کا کنڈوم استعمال کریں یا کسی ماہر وتجربہ کار لیڈی ڈاکٹر کے مشورہ سے کوئی اور غیرمضر تدبیر اختیار کریں اور اگر کبھی کسی وجہ سے حمل کا استقرار ہوجائے تو آپ کے لیے چار ماہ سے کم مدت کے حمل کے اسقاط کی گنجائش رہے گی؛ کیوں کہ سوال میں مذکور آپ کی بیماری چار ماہ سے کم کے حمل کے اسقاط کے لیے عذر اور وجہ جواز بن سکتی ہے، وفی کراہة الخانیة: ولا أقول بالحلّ إذ المحرم لو کسر بیض الصید ضمنہ لأنہ أصل الصید فلما کان یؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن یلحقہا إثم ہنا إذا سقط بغیر عذر اہ قال ابن وہبان: ومن الأعذار أن ینقطع لبنہا بعد ظہور الحمل ولیس لأبی الصبی ما یستأجر بہ الظئر ویخاف ہلاکہ․ ونقل عن الذخیرة: لو أرادت الإلقاء قبل مضی زمن ینفخ فیہ الروح ہل یباح لہا ذلک أم لا؟ اختلفوا فیہ، وکان الفقیہ علي بن موسی یقول: إنہ یکرہ، فإن الماء بعدما وقع فی الرحم مآلہ الحیاة فیکون لہ حکم الحیاة کما فی بیضة صید الحرم، ونحوہ فی الظہیریة قال ابن وہبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر․ (شامي ۴: ۳۳۶ مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند