• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 606199

    عنوان:

    کیا منی صرف شادی شدہ لڑکی کو نکلتی ہے؟

    سوال:

    کیا منی صرف شادی شدہ لڑکی کو ہی ہو سکتی ہے یا بغیر ہمبستری کے کنواری لڑکی کو بھی ہو سکتی ہے ؟ اگر ہو سکتی ہے تو اس کی نشان دہی کیسے کی جا سکتی ہے اور کیا غسل واجب ہو جائے گا؟

    جواب نمبر: 606199

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:133-87/N=2/1443

     (۱):ہر بالغ لڑکا، لڑکی کو منی آسکتی ہے، اس کے لیے شادی شدہ ہونا یا ہمبستری کرنا ضروری نہیں؛ البتہ لڑکیوں اور عورتوں کو منی عام طور پر ہم بستری کے وقت نکلتی ہے، عام حالات میں یا نیند میں بدخوابی سے منی کا خروج شاذ ونادر (کسی کسی عورت کو) ہوتا ہے ۔

    (۲، ۳): لڑکیوں اور عورتوں کو عام طور پر ہم بستری کے علاوہ منی نہیں نکلتی؛ البتہ شہوت کے وقت مذی نکلتی ہے یا لیکوریا میں بلا شہوت ایک سفید مادہ نکلتا ہے، مذی یا لیکوریا کی رطوبت نکلنے سے صرف وضو ٹوٹتا ہے، غسل فرض نہیں ہوتا اور ہم بستری سے یا شہوت کے ساتھ منی نکلنے سے غسل فرض ہوجاتا ہے، اور عورتوں کی منی کی پہچان یہ ہے کہ وہ ایک گاڑھا زردی مائل مادہ ہوتا ہے، جس کے نکل جانے سے عام طور پر شہوت ختم ہوجاتی ہے اور عورت کا یہ مادہ مرد کے مادہ سے کچھ پتلا ہوتا ہے ، اور ایک مادہ ابتدائے شہوت سے منی نکلنے تک آتا ہے اور وہ صاف وشفاف، چکنا اور سیال ہوتا ہے، یہ مذی ہے، منی نہیں اور اس کے نکلنے سے صرف وضو ٹوٹتا ہے، غسل فرض نہیں ہوتا؛ جیساکہ اوپر بھی ذکر کیا گیا۔

    عن أبي عبدالرحمن، عن علي قال: کنت رجلا مذاء، فأمرت رجلا یسأل النبي صلی الله علیہ وسلم لمکان ابنتہ، فسأل، فقال: ”توضأ واغسل ذکرک“ (صحیح البخاری، کتاب الطھارة، باب غسل المذي والوضوء منہ، ۱: ۴۱، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: سألت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن المذي: فقال: ”من المذي الوضوء، ومن المني الغسل“ (سنن الترمذي، أبواب الطھارة، باب ما جاء فی المني والمذي، ۱:۳۱،ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    (لا) عند (مذي أو ودي)؛ بل الوضوء منہ ومن البول جمیعاً علی الظاہر(الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، ۱:۳۰۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱: ۵۵۰ - ۵۵۲، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ:”بل الوضوء منہ إلخ“:أي بل یجب الوضوء منہ، أي: من الودي ومن البول جمیعاً (رد المحتار)۔

    وأجمع العلماء أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي کذا فی شرح المھذب(البحر الرائق، کتاب الطھارة، ۱:۱۱۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند