معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 52013
جواب نمبر: 52013
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 688-241/L=6/1435-U عورتوں کے لیے چہرہ کا بھی پردہ ہے، اس کی ابتداء آیت حجاب کے آغاز سے ہے قال تعالی: وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَی (الآیة) تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہٴ جہالت کے دستور کے موافق مت پھرو (جس میں بے پردگی رائج تھی گو بلا فحش ہی کیوں نہ ہو) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفتی شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں: ”اس آیت سے پردے کے متعلق دو باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ اصل مطلوب عند اللہ عورتوں کے لیے یہ ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں ان کی تخلیق گھریلو کاموں کے لیے ہوئی ہے ان میں مشغول رہیں اور اصلی پردہ جو شرعاً مطلوب ہے وہ حجاب بالبیوت ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر بضرورت کبھی عورت کو گھر سے نکلنا پڑے تو زینت کے اظہار کے ساتھ نہ نکلے بلکہ برقع یا جلباب جس میں پورا بدن ڈھک جائے وہ پہن کر نکلے (معارف القرآن: ۷/ ۱۳۳) اس سے بوقت ضرورت عورت کے لیے نکلتے وقت چہرہ چھپانے کا حکم معلوم ہوا، ایک دوسری آیت میں صراحتاً چہرہ چھپانے کا حکم مذکور ہے۔ قال تعالی: یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ الخ اے پیغمبر اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منھ کے اوپر) جھکالیا کریں۔ اس آیت میں جلابیب جمع جلباب کا ذکر ہے جو ایک خاص لمبی چادر کو کہا جاتا ہے اس چادر کی ہیئت کے متعلق حضرت ابن مسعود نے فرمایات کہ وہ چادر ہے جو دوپٹے کے اوپر اوڑھی جاتی ہے۔ (ابن کثیر) اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی ہیئت یہ بیان فرمائی ہے أمر اللہ نساء الموٴمنین إذا خرجن من بیوتہن في حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویدنین عینا واحدة (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے یہ چادر لٹکاکر چہروں کو چھپالیں اور صرف ایک آنکھ (راستہ دیکھنے کے لیے) کھلی رکھیں،اور امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سلمانی سے اس آیت کا مطلب اور جلباب کی کیفیت دریافت کی تو انھوں نے سر کے اوپر سے چادر․․․ چہرہ پر لٹکاکر چہرہ چھپالیا اور صرف بائیں آنکھ کھلی رکھ کر ”ادنا“ اور ”جلباب“ کی تفسیر عملاً بیان فرمائی (معارف القرآن: ۷/ ۲۳۳) مذکورہ بالا تفسیر سے چہرے کے حجاب کا حکم صراحةً معلوم ہوگیا۔ پتہ چلا کہ فیس بک پر جو بات پھیلا رکھی ہے کہ چہرہ کا پردہ نہیں ہے یہ کم علمی اور عدم تتبع کی بات ہے۔ واضح رہے کہ علم معتمد عالم سے سیکھنا چاہیے، ہرکسی کی بات کو دین سمجھ کر اس پر بلا تحقیق عمل کرنا جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند