• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 150907

    عنوان: نامحرم لوگوں کے سامنے جانے کے لیے والدین اصرار کریں تو کیا ان کی بات ماننا چاہیے؟

    سوال: (۱) اگر کسی بالغ عاقل لڑکی کے ماں باپ اپنی بیٹی کو غیر محرم کے پاس اس کے سامنے جانے سے نہیں روکتے، بلکہ سامنے جانے کو کہتے ہیں اور نہ جانے پر برا بھلا کہتے ہیں، اور بیٹی سامنے جانا نہیں چاہتی وہ دین اور پردہ کا حکم جانتی ہے، اس کے والدین بیٹی کو ڈانٹتے ہیں اگر وہ سامنے نہیں جاتی ہے تو ، اور وہ اپنے والدین کو بتاتی بھی ہے کہ غیر محرم کے سامنے آنا گناہ ہے۔ برائے مہربانی شریعت کے حساب سے اگر وہ لڑکی اپنے والدین کی بات نہ مانے تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور لڑکی والدین کی بات نہ ماننے کی وجہ سے گنہگار تو نہیں ہوگی؟ (۲) محرم اور غیر محرم کون کون ہیں ؟ براہ کرم تفصیل سے بتائیں ۔

    جواب نمبر: 150907

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 711-584/D=8/1438

    حدیث میں ہے لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق، یعنی جو کام اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کا ہو اس میں کسی کا کہنا نہیں ماننا ہے۔ پس نامحرم لوگوں کے سامنے جانے کے لیے والدین کا لڑکی سے اصرار کرنا گناہ کا عمل ہے، اور لڑکی کا نہ جانا حکم شریعت کے مطابق اور جائز عمل ہے، پردہ شریعت کا ایسا لازمی اور ضروری حکم ہے جس کی تاکید قرآن پاک کی متعدد آیات اور احادیث کی بے شمار روایات میں آئی ہے، پس پردہ کے معاملہ میں لڑکی کا والدین کی بات نہ ماننا صحیح ہے اس سے لڑکی گنہگار نہ ہوگی؛ لیکن یہ ملحوظ رہے کہ والدین کی بات کا جواب ہمیشہ نرمی اور ادب تہذیب کے دائرہ کے اندر ہو، ان کی شان ومقام میں بے ادبی یا زبان درازی کا اثر قطعی نہ پایا جائے، اور نہ ہی دوسرے امور میں ان کی اطاعت میں کمی کی جائے۔

    (۲) جن مردوں سے لڑکی کا نکاح کبھی بھی نہ ہوسکے مثلاً بھائی خواہ حقیقی ہو یا علاتی یا اخیافی ہو، چچا، ماموں، بھانجہ، بھتیجہ، باپ، دادا، بیٹا، داماد،سسر وغیرہ۔ یہ سب لڑکی کے محرم ہیں۔

    اور جن سے کبھی کسی نہ کسی حالت میں نکاح ہوسکتا ہو یا ہوسکنے کی گنجائش نکل سکتی ہو وہ نامحرم ہوتے ہیں، جیسے ماموں اور چچا کے بیٹے خالہ اور پھوپھی کے بیٹے، خالو، پھوپھا، بہنوئی دیور اور وہ سارے اجنبی مرد جس سے کسی قسم کا رشتہ نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند