• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 56276

    عنوان: غیرحاضری کرنے والے بچوں سے مالی جرمانہ وصول کرنا شرعاً ناجائز ہے، اگر وصول کرلیا گیا، تو اس کو واپس لوٹانا ضروری ہے۔

    سوال: گزارش ہے ....کہ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت پرائیوٹ سکول کھولا ھے جس پر تقریبا(؟) ۳۵ لاکھ کے لگ بھگ خرچہ آیا ...اور زمین کی قیمت اس سے علاوہ ھے .... سوالات درج ذیل ہیں ... ۱.موسم گرما کی تین ماہ چھٹیاں ہوتی ھیں اور ھم بچوں سے چھٹیوں کا فیس لیتے ھیں کیا فیس لینا جائز ھے ؟ ۲.گرمیوں کی چھٹیوں میں اساتذہ کو پہلے تنخواہیں نہیں دیتے تھے اب ڈیڑھ ماہ کی تنخواہ دے رھے ھیں کیا ایسا کرنا ھمارے لیے جائز ہے ؟جبکہ اساتذہ سے چھٹیوں کے دوران کوئی کام نہیں لیا جاتا- ۳. بچوں سے امتحانی فیس لینا جائز ہے کہ نہیں؟ ۴. جب بچے طویل غیر حاضری کی وجہ سے سکول سے خارج کرتے ہیں جب وہ دوبارہ داخلہ لینے آتے ہیں تو ھم ان سے ری ایڈمشن فیس لیتے ہیں جو اول سکول داخلہ فیس کے برابر ھوتی ہے ...کیا دوبارہ فیس لینا جائز ھے ؟..ری ایڈمیشن فیس لینے کے بعد کیا اس مہینے کی فیس لینا جائز ہے جس میں بچہ سکول سے غیر حاضر ھو تا ہے یا نہیں- ۵. کیا سالانہ رزلٹ پروگرام منانے کیلئے ھم بچوں سے اضافی امتحانی فیس لے سکتے ھیں تاکہ اس رقم سے پروگرام تیار کیا جاسکے اور کچھ اپنی طرف سے خرچہ کر لیں ..؟؟ ۶. کیا ایک بچے کو ڈبل پروموشن دینے پر اس سے ڈبل یا معمول سے زیادہ فیس لے سکتے ہیں؟ ۷.کیا ھم کسی بچے کو تنبیہہ کے طورپر جرمانہ کرسکتے ہیں تاکہ اس کو دوبارہ طویل غیر حاضری سے روکا جائے ؟اور کیا جرمانے کی رقم ھم خود یا سکول کی مد میں استعمال کرسکتے ہیں؟ ۸. اگر ھمیں کتابیں اور سٹیشنری ۳۰ یا ۴۰ فی صد کی رعایت سے ملیں تو ھم ان کتابوں میں کتنی فیصد منافع لے سکتے ھیں؟ ازراہ کرم ھماری گزارشات کا تفصیلی جواب دیدیں تاکہ اپ حضرات کی رھنمائ میں ہم اپنا پروگرام آگے لے جا سکیں .... ہم آپ حضرات کا فتویٰ اپنے ہم پیشہ احباب تک بھی پہنچائیں گے انشائاللہ..."

    جواب نمبر: 56276

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 189-189/Sd=6/1436-U اسکول میں فیس دے کر طلبہ کے پڑھنے اور تنخواہ لے کر اساتذہ کے پڑھانے کی شرعی حیثیت اِجارے کی ہوتی ہے اور اِجارے میں اصل چیز اجرت اور مدت کی تعیین ہے چاہے یہ تعیین صراحتا معاہدے کے ذریعے ہو یا عرف کی بنا پر ہو، اگر اجارے میں اجرت اور مدت متعین کردی گئی، تو شرعاً اجارہ صحیح ہوجائے گا، بشرطیکہ اِجارے میں کوئی فاسد شرط نہ لگائی جائے، اس بنیادی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں: (۱) اگر اسکول کے داخلہ فارم پر یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ پورے سال کی تعلیمی فیس اتنی ہے، جس میں تین ماہ چھٹیوں کی بھی فیس لی جائے گی یا آپ کے علاقے میں چھٹیوں کی بھی فیس لینے کا عرف ہے، تو معاہدے یا عرف کے مطابق تین ماہ کی چھٹیوں کی فیس لینا شرعاً جائز ہے۔ (۲-الف) جی ہاں معاہدے کے مطابق اساتذہ کو ڈیڑھ ماہ چھٹیوں کی تنخواہ دینا جائز ہے، چاہے اساتذہ سے چھٹیوں کے دوران کوئی کام نہ لیا جائے، ڈیڑھ ماہ کی تنخواہ باعمل جو مقرر کی گئی ہے، اس کی حیثیت یہ ہوگی کہ گویا وہ سارے سال کے مجموعی عمل پر ایک اجرت اضافیہ ہے جو معلوم ہے اور فریقین کی رضامندی سے جائز ہے۔ (۲-ب) بچوں سے امتحان کی فیس لینا جائز ہے۔ (۳- الف) ری ایڈمیشن فیس لینا بھی جائز ہے۔ (۳- ب) اگر فارم داخلہ پر یہ بات لکھ دی گئی ہے یا آپ کے یہاں کا عرف ہے کہ طالب علم کو پورے سال کی فیس دینی ہوگی چاہے وہ حاضر رہے یا غیر حاضر، تو ری ا یڈمیشن فیس لینے کے بعد ا خراج سے پہلے کے مہینوں کی فیس لینا جائز ہے، چاہے طالب علم اس میں غیر حاضر رہا ہو۔ (۵) جی ہاں! معاہدے یا عرف کے مطابق سالانہ رزلٹ پروگرام کے لیے امتحانی فیس لینا جائز ہے۔ (۶) ڈبل پرموشن دینے پر ڈبل یا معمول سے زیادہ فیس لینے کی مکمل تفصیل لکھیں، پھر اس جزء کا جواب دیا جائے گا۔ (۷) غیرحاضری کرنے والے بچوں سے مالی جرمانہ وصول کرنا شرعاً ناجائز ہے، اگر وصول کرلیا گیا، تو اس کو واپس لوٹانا ضروری ہے۔ (۸) بیع وشراء میں منافع کی کوئی حد نہیں ہے، آدمی کو شرعاً اختیار ہے کہ وہ اپنی مملوکہ اشیاء جس قدر منافع کے ساتھ فروخت کرے؛ البتہ متعارف منافع سے زیادہ لینا خلافِ مروت ہے۔ قال الحصکفی: وشرطہا کون الأجرة والمنفعة معلومتین؛ لأن جہالتہا تفضي إلی المنازعة (الدر المختار مع رد المحتار: ۹/۷، کتبا الإجارة، زکریا، دیوبند) وقال في الہندیة في شرائط صحة الإجارة: منہا بیان المدة - ومنہا أن تکون الأجرة معلومة- إلخ (الفتاوی الہندیة: ۴/۴۱۱، کتبا الإجارة، زکریا دیوبند) امداد افتاوی: ۳/۳۸۷- ۳۹۴- ۳۹۸ -۴۰۲ ، زکریا، دیوبند، و چند اہم عصری مسائل، ص: ۲۸۳-۲۸۶، مکتبہ دارالعلوم، فتاوی عثمانی: ۳/۳۶۶- ۳۷۴، کتاب الاجارة، زکریا، دیوبند، فتاوی رشیدیہ، ص: ۴۵۵، مکتبہ الحق ممبئی۔ ====================== جواب درست ہے، بشرطیکہ آپ طلبہ کو پابند نہ کریں کہ وہ سامان آپ ہی کے یہاں سے لیں ورنہ پھر متعارف منافع سے زیادہ لینا ظلم ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند