معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 65410
جواب نمبر: 65410
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID:761-708/Sn=8/1437 (۱، ۲) گر لڑکی کو پہلے سے یہ بیماری تھی تو شادی سے پہلے والدین کوچاہئے تھا کہ لڑکے کو یہ بتلادیں، نہ بتلاکر انھوں نے غلط کیا، بہر حال صورتِ مسوٴولہ میں بہتر یہی ہے کہ نباہ کی کوشش کی جائے اور لڑکی کا مناسب علاج کیا جائے؛ باقی اگر علاج وغیرہ کے بعد بھی صحت یابی کی امید نہ ہوتو طلاق دینے کی بھی گنجائش ہے، یہ ظلم نہ ہوگا؛ لیکن جب بھی طلاق دینا منظور ہوتو صرف ایک طلاق رجعی دے کر چھوڑدے، عدت گزار کر لڑکی خود بہ خود بائنہ ہوجائے گی، تین طلاق ہرگز نہ دے۔ أبغض المباحات إلی اللہ تعالی الطلاق (ابوداوٴد) فتاوی ہندیہ میں ہے: وأما وصفہ أنہ محظور نظرا إلی الأصل ومباح نظرا إلی الحاجة کذا فی الکافی (ہندیہ ۱/۳۴۸، ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند