• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 66685

    عنوان: ” تم فارغ ہو، نکل جاؤ ادھر سے‘‘ كہنے كا كیا حكم ہے؟

    سوال: (۱) ہمارے درمیان لڑکے جھگڑے کے وقت میرے شوہر زیادہ تر کہتے ہیں کہ ” تم فارغ ہو، نکل جاؤ ادھر سے ، یا آزاد ہو تم میری طرف سے ، اب نکلو اس گھر سے“ ۔ میں نے سنا ہے کہ کیا اس سے طلاق ہوجاتی ہے؟ میں نے شوہر کو اس بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تم کو طلاق دینے کی کبھی کوئی نیت نہیں کی تھی اور نہ ہی اس کے بارے میں سوچتاہوں، بس غصہ آجاتاہے تو غصہ دکھانے کے لیے ایسا کہتاہوں۔ (۲) ایک مرتبہ یہ بھی ہوا کہ ہمارے درمیان جھگڑا ہوا تو شوہر نے مجھے بہت زیادہ غلط باتیں کہیں تو بدلے میں میں نے ان کو کہا کہ آپ مجھے چھوڑ دیں، طلاق دیدیں تو پھر انہوں نے وہی باتیں کہیں کہ ” ہاں ، تو نکل جا نا، پھر اس گھر سے، میری طرف سے تو فارغ ہو تم “ ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے طلاق دینے کی کوئی نیت تھی، بس صرف تم کو غصہ دکھانا تھا، میرا مطلب طلاق نہیں دینا تھا۔ میں نے تفسیر میں پڑھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ میں تین طلاق کہے تو اس سے ایک ہی طلاق ہوگی نہ کہ تین طلاق ہوگی ۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 66685

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1077-1130/SN=12/1437

    (۱) ”آزاد ہو تم“ یہ طلاق کے الفاظِ صریحہ میں سے ہے، اس سے بہرحال طلاق واقع ہوجاتی ہے خواہ طلاق کی نیت کی جائے یا نہ کی جائے؛ ہاں ”نکل جاوٴ“ بہرحال محتاجِ نیت ہے، اس سے بلا نیت طلاق واقع نہیں ہوتی، رہا ”تم فارغ ہو“ تو اسے بہ نیت طلاق یا بہ وقت مذاکرہٴ طلاق کہا جائے تو اس سے طلاقِ بائن پڑتی ہے؛ (خیر الفتاوی ۵/۲۰۹)؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں اپنے ذہن پہ زور دے کر یہ طے کریں کہ آپ کے شوہر نے ”تم آزاد ہو“ کتنے مرتبہ کہا؟ ایک ، دو، تین جتنے مرتبہ کہا ہوگا اتنی طلاقیں آپ پر پڑچکی ہیں، ”نیز فارغ ہو“ اگر بہ وقت مذاکرہٴ طلاق کہا ہے تواس سے بھی طلاقِ بائن پڑچکی ہے، بہرحال صحیح تعداد اور مکمل صورتِ حال لکھنے پر ہی اس کا کوئی قطعی حکم لکھا جاسکتا ہے۔
    (۲) اس واقعے میں شوہر کے قول ”ہاں نکل جانا پھر گھر سے “ اگر مقصد یہ ہے کہ ہاں میں نے طلاق دے دی ہے تم چلی جاوٴ تواس سے ایک بائن پڑی، اس صورت میں اگلا لفظ ”فارغ ہوتم“ غیر موٴثر ہوگا، اس سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی، اگر اول الذکر جملہ سے طلاق دینا مراد نہیں ہے تو پھر اس جملہ سے ایک طلاق بائن پڑے گی؛ اس لیے کہ یہ بہ وقت مذاکرہٴ طلاق کہا گیا ہے، بہرحال اس واقعے میں ایک طلاق بائن پڑنے کا حکم ہوگا؛ لیکن یہ تو اس صورت میں ہے جب آپ طلاق کی محل ہوں، اگر پہلے ہی شوہر کی طرف سے تین طلاق کی بنا پر مغلظہ ہوچکی ہیں تو پھر یہ سب فضول ہے، اب تو صرف حکم یہ ہوگا کہ آپ فوراً علیحدگی اختیار کریں۔
    (۳) معلوم نہیں، آپ نے کس تفسیر میں یہ بات پڑھی؟ بہرحال اس سلسلے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہے خواہ ایک مجلس میں دے یا الگ مجلسوں میں، اس طرح خواہ ایک ہی جملہ میں دے یا الگ الگ جملوں میں بہر صورت تین طلاقیں پڑ جاتی ہیں، یہی جمہور صحابہ، تابعین، تمام محدثین، چاروں ائمہ: امام ابوحنیفہ ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کا مسلک ہے، ایک طلاق واقع ہونے کی بات قرآن و حدیث نیز جمہورِ امت کے خلاف ہے وہ قطعاً صحیح اور قابلِ عمل نہیں ہے۔ ذہب جماہیر العلماء من التابعین ومن بعدہم منہم: الأوزاعي والنخعي والثوريّ وابو حنیفة والشافعي وأصحابہ وأحمد وأصحابہ․․․․․ علی من طلق امرأتہ ثلاثاً وقعن ولکنہ یأثم (عمدة القاری ۲۰/۲۳۳، کتاب الطلاق، ط: بیروت) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند