• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 50571

    عنوان: ایک شخص اپنی بیوی کو ایک ہی جگہ بیٹھ کر تین مرتبہ کہتاہے

    سوال: ایک شخص اپنی بیوی کو ایک ہی جگہ بیٹھ کر تین مرتبہ کہتاہے ، میں نے طلاق دی ، میں نے طلاق دی، میں نے طلاق دی، جب لوگوں نے کہا کہ طلاق واقع ہوگئی تو وہ خود اور اس کے رشتہ دار اور دیگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کوتو نہ نمازپڑھنی آتی ہے ، نہ صحیح سے وضو کرنا آتاہے ، یہ تو جانتاہی نہیں کہ طلاق کہنے سے کیا ہواہے وہ خود بھی یہی کہتاہے کہ مجھے نہیں معلوم اس طرح کہنے سے بیوی کے ساتھ نہیں رہ سکتے یا طلاق کیا ہوتی ہے ، میں نے تو ویسی ہی کہہ دیا اس لیے طلاق نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح جاہل آدمی کے کہنے سے طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ اور کچھ لوگوں نے اس کی بیوی کو اس کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج بھی دیا ہے ، کیا یہ صحیح ہے؟ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 50571

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 327-262/D=3/1435-U صورت مسئولہ میں شخص مذکور کی بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی، اب دونوں کا ایک ساتھ رہنا حرام ہے، اس پر لازم ہے کہ مطلقہ بیوی سے مکمل علیحدگی اختیار کرے، اب بدون حلالہ شرعیہ کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ از خود بیوی سے علیحدگی اختیار نہ کرے تو خاندان اورمحلہ کے لوگوں پر لازم ہے کہ اسے اس پر مجبور کریں، اور نہ ماننے کی صورت میں اس سے قطع تعلق کریں۔ جن لوگوں نے بیوی کو اس کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دی انھوں نے سخت گناہ کا کام کیا اورحرام عمل میں تعاون کیا ”تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ الآیة․ لہٰذا انھیں اس عمل سے توبہ کرنا چاہیے اور شخص مذکور کو صحیح راستہ پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ طلاق کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ثلاث جدہن جد وہزلہن جد کہ تین الفاظ ایسے ہیں جنھیں سنجیدگی سے کہا جائے یا مذاق اور تفریح کے طور پر کہا جائے ان الفاظ کا اثر ظاہر ہوجائے گا، ان میں سے ایک طلاق کا لفظ بھی ہے، اسی لیے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ طلاق کا لفظ ہنسی کھیل کے طور پر کہا ہو یا اس لفظ کا معنی مطلب نہ جانتے ہوئے کہا ہو، بہرصورت ان الفاظ کے کہنے سے طلاق پڑجائے گی۔ قال في الدر ویقع طلاق کل زوج بالغ عاقل․․․ ولو ․․․ ہازلاً أو سفیہًا ․․․ أو مخطئًا بأن أراد التکلم بغیر الطلاق فجری علی لسانہ الطلاق أو تلفظ بہ غیر عالم بمعناہ وغافلاً وساہیًا․ (الدر المخترا: ۲/۲۱۷)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند